• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

بابری مسجد کی شہادت کو 33 سال مکمل ہوگئے، 6 دسمبر 1992 کو انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔

انتہا پسند حملہ آوروں کا تعلق بی جے پی، آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے تھا، انہوں نے کلہاڑوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے بابری مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت کی گئی، فسادات کے نتیجے میں 2000 سے زائد مسلمان شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔ 

ایل کے ایڈوانی اور منوہر جوشی انتہاپسند ہندوؤں کو بابری مسجد شہید کرنے کیلئے اشتعال دلاتے رہے۔ 2009 میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماؤں سمیت 68 لوگوں کو موردالزام ٹھہرایا گیا تھا۔

سربراہ بھارتی انٹیلیجنس بیورو ملوئے کرشنا کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ اُس دن سے 10 ماہ پہلے بنایا تھا۔

بابری مسجد کی شہادت کا کیس تو چلا مگر بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کردیا۔

مغل دور میں تعمیر کی گئی اس مسجد کی شہادت پر ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کی بےحرمتی بین الاقوامی اصولوں اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ 1992 سے اب تک ریاست گجرات میں 500 مساجد شہید اور بےشمار مزارات مسمار کیے چکے ہیں۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید