عبداللہ حسین کی ’’اداس نسلیں‘‘ جسے اردو ناول نگاری میں کلاسیک کی حیثیت حاصل ہے۔ دوعالمگیر جنگوں کے درمیانی دور کی کہانی ہے جس میں جنگ جبر اور ذہنی غلامی میں جکڑی ہوئی نسل کے لئےسوچنا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار تھا۔آزاد تو ہم آج بھی نہیں ہیں صرف آقا اور زنجیریں بدل گئی ہیں۔ ہمارے لئے زوال و انتشار کی وہ صورتحال ہے کہ ذہین اور مفاد یافتہ اقلیت میں ذہانت کا فقدان پیدا ہوگیا ہے۔ وہ صرف دو اور دوچار میں مگن ہے اور عوام اس جابر اقلیت کی محکوم تو ہے مگر وفادار نہیں۔ محدود درمیانی طبقے نے جدوجہد کے ذریعے خود رفعتیں تو پالیں مگر خودی کو بلند نہ کرسکے۔ عوام نئے رہنما اور راستوں کی تلاش میں چھوٹے چھوٹے گروہ میں بٹ کر انتشار کا شکار ہوگئے۔ نا اہل قیادت کی تقلید کرنے والی اکثریت یا تو لاتعلق ہے یا اتنی فرمانبردار کہ سر جھکائے قربان گاہ کی طرف گامزن ہے۔ طرز زندگی میں قدامت پسندی اور روشن خیالی دو انتہائوں پر پہنچ گئی ہے۔ دونوں میں ٹکرائو سے تشدد نے جنم لے لیا ہے۔ زندگی بے مقصد اور بے معنی دورانیہ بن گئی ہے… اخلاق پست اور مذاق پستہ تر۔ مذہب کی جگہ خرافات، فکر کی جگہ بے فکری، صراط مستقیم کی جگہ بے راہ روی، یقین کی جگہ بے یقینی، مزاحمت کی جگہ مفاہمت برائے مفاد باہمی سکہ رائج الوقت بن گئی ہے۔زندگی کا سارا نظام بے ترتیب ہے، لاتعلق حکمراں، بیزار عوام اور نا مہربان ہمسائے کیا ہمارا دور انتشار مکمل ہوگیا ہے۔ کوئی ملک، معاشرہ، تہذیب یا ثقافت عروج و زوال کے مروجہ اصولوں سے مستثنیٰ نہیں۔ ہاں البتہ ہمیں یہ علم نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں زوال کی انتہا یا عروج کے بالکل آغاز پر۔ تاریخ دانوں نے عروج و زوال کا دورانیہ ایک ہزار سال مقرر کیا ہے۔بہت کم لوگوں کو اس بات کا شعور ہے کہ ہمارا تعلق اس خوش قسمت نسل سے ہے جس نے ایک صدی کو نہیں بلکہ ایک ملینیم کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
ہماری نسل کی آسودگی کو دوسری جنگ عظیم کے اختتام یعنی 1945 ء سے شروع ہونا تھا۔ جس کا آغاز تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان سے منسلک تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارا آغاز ہی غیر آئینی ثابت ہوا۔ زوال کی وجوہات سے ہم واقف ہیں اور نئی بنیادوں کو ہماری نسل ہی کو بھرنا ہے کہ ہم اور ہماری نئی نسل اس راز سے واقف ہے کہ بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں۔ لیکن
آسمان ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
اس کالم کا مقصد اپنی حاضر اور آئندہ نسلوں کو تعمیر و ترقی کا وہ روشن پہلو دکھانا ہے، جس کا تعلق تیسری ارتقائی اور انقلابی زقند سے ہے۔ ہم صرف اس لئے خوش قسمت نہیں کہ 1945 ء کے بعد پیدا ہونے والوں نے ایک ملینیم کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا ہے بلکہ ہم نے انسانی تاریخ میں زرعی انقلاب (8000- 5000) قبل مسیح اور صنعتی انقلاب (1750- 1850) کے بعد تیسرے کمپیوٹر کو جنم لیتے دیکھا بلکہ اس کے استعمال سے دنیا کو بتدریج بدلتے دیکھا ہے۔ میرا ہی نہیں بلکہ سائنسی ترقی کے بارے میں عام تصور یہ تھا کہ انسان کی جگہ روبوٹ مشینیں تمام کام سنبھال لیں گی۔ یعنی ایک انسانی شکل کی مشین انسان کی جگہ تمام کام سنبھال لے گی۔ ایسا ہوا مگر با انداز دِگر… جب 50 ء کی دہائی میں ناز و نشاط کے چوراہے پر پاکستان کا پہلا الیکٹرانک سگنل ایستادہ کیا گیا تو لوگ اشاروں کی مدد سے موٹروں کو رکنے اور چلنے کا نظارہ کرنے چوراہے پر جمع ہوجایا کرتے تھے۔ پھر 60 ء کی دہائی میں اسٹیٹ بنک کراچی کی افتتاحی تقریب پر برقی سیڑھیوں (ACCELETORS) کو ہزاروں مردوں عورتوں نے بطور تفریح استعمال کیا اور آج ATM سے رقم نکالتے ہوئے ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ روبوٹ کی ہی ایک شکل ہے جو ہمارے ابتدائی تاثر سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن ہالی وڈ کی فلمی دنیا ابھی تک STAR WARS- TRANSFORMERS اور ROB COP کے روبوٹک تصور سے باہر نہیں آسکی ہے۔کمپیوٹر کی وجہ سے دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ مائیکروویو، موٹر کار، موبائل، لیپ ٹاپ اور ہوائی جہاز غرض ہر شے مائیکرو پروسیسر کی مدد سے ہمارے وجود سے منسلک ہوچکی ہے۔ کمپیوٹر کی وجہ سے ہمارا معیار زندگی بہت بلند ہوگیا ہے۔ آج یہ بات ناقابل تصور ہے کہ کوئی پروڈکٹ تیز رفتاری اور اعلیٰ معیار پر کمپیوٹر سائنس کے بغیر وجود میں آسکے۔ یہ اطلاعات، ابلاغیات، تفریح اور بینکنگ غرض زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ پرنٹنگ، ریکارڈنگ، ترجمے اور حساب کتاب میں کام کی مدت اور جگہ کے استعمال کو مختصر اور سہل ترین کردیا ہے۔ کمپیوٹر کی نقاشی میں ٹرانسسٹر کی دریافت نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ مائیکرو چپس کی مدد سے پرسنل کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے گلوبل نیٹ ورک کی مدد سے افراد کو دنیا کے ہر گوشے سے منسلک کردیا ہے۔ CHIPS نے نہایت محدود اکائی میں زیادہ سے زیادہ الیکٹرانک ذہانت کو جمع کرکے ایجادات کو نہایت مختصر اور تیز رفتار کردیا ہے۔ اکیسویں صدی میں اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ نے بڑے پیمانے پر انقلاب برپا کیا ہے۔ اس کا استعمال لاتعین ہے، آج انسان محو حیرت ہے کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔مایوسی کفر ہے مگرخدا نے بھی اپنے اصول کے مطابق اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔ انفرادیت کی حد تک فرد نے اپنے مقدر کے ستارے کو پہچان لیا ہے مگر اجتماعی طور پر ابھی جمود، لاتعلقی اور افراتفری طاری ہے۔
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی
ہاں البتہ ایک تیسرا اصول اور ہے کہ جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں کہ ہم یہاں سے ڈوب کر کہیں اور نہ طلوع ہوجائیں۔ میرا اشارہ مغرب کی طرف ہے جہاں ہجرت اور تبدیلی مذہب کی وجہ سے اسلام دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے، ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوگا۔ 1492 ء میں جب مسلمان اسپین سے جلاوطن کئے جارہے تھے تو ترک افواج 1529 ء میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں۔
تاریخ نے اپنا رشتہ ہمارے نامۂ اعمال سے جوڑدیا ہے، جس کے مطابق ہمیں ایک آخری موقع اورملے گا۔ اکیسویں صدی نوجوانوں اور کمپیوٹر سائنس کی صدی ہوگی جس کے ذریعے وہ اپنی نسلوں کو آسودہ کرلیں یا گم کردہ راہ… ورنہ تاریخ میں جگہ تو مل جائے گی مگر درس عبرت کے طور پر۔