پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ ایک بار پھر لہو لہو..... 61سے زائد پولیس اہلکار شہید، 118زخمی ہوگئے۔ فوج کا ایک کیپٹن بھی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کے دوران شہید ہوا۔ اس سانحے کے بعد پاکستان کا ہر شہری ایک بار پھر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں۔ حالیہ اگست کو کوئٹہ میں پہلے ایک وکیل کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ جب وکلاء برادری اس کی میت کیلئے اسپتال پہنچی تو خودکش حملہ کر دیا گیا جس میں 75وکلا جابحق ہوگئے۔ ایک سال پیچھے چلے جائیں تو بڈھ بیر پشاور میں 13دہشت گرد فضائیہ کی بیس میں داخل ہوئے اور 29نمازیوں کو شہید کر دیا، دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ انتہائی خوفناک تھا، جس میں 135معصوم بچوں اور اساتذہ کو جلایا گیا۔ اسی طرح دسمبر 2012ء میں باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر راکٹ حملے میں7شہری جابحق،22مئی 2011ء دہشتگردوں کے مہران نیول بیس پر حملے میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 17افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے پہلے بھی 2009ء میں راولپنڈی میں پریڈ لین مسجد پر حملے میں40افراد شہید ہوئے۔ 2008ء میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں تباہ کن حملے میں چیک سفیر اور دو امریکی میرینز سمیت65افراد مارے گئے تھے۔ ایسے ہی دہشتگردی کے واقعات میں بے نظیر بھٹو، کے پی کے سینئر وزیر بشیر بلور، لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، کراچی میں حسن ترابی، مفتی نظام الدین شامزئی، وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزداہ کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔
اسمیںکوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے ملک سے دہشتگردی ختم کرنے کیلئے جرات وبہادری سے ہزاروں جانیں گنواکر لوگوں کوسکون کی نیند فراہم کی لیکن یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ جتنے بھی بڑے سانحات ہوئے انکے حوالے سے پہلے سے انٹیلی جنس اطلاعات تھیں مگر ان کو روکنے کیلئے کیو ں حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے۔ایک ہی طرح کے طریقہ واردات کو کیوں نہیں سنبھالا جا سکا۔ ابھی حالیہ واقعہ کی مثال لے لیجئے کہ 6ستمبر 2016ء کو ٹریننگ کالج کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کے موقع پر آئی جی پولیس نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ اس ڈھائی سو ایکٹر پر مشتمل کالج کی بائونڈری وال نہیں، جس پر وزیراعلیٰ نے تعمیر کی منظوری دی مگر افسوس کہ اس ہدایت پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اب وزیراعلیٰ بلوچستان یہ موقف اختیا ر کررہے ہیں کہ شہر بھر میں ہائی الرٹ تھا دہشتگرد یہاں کچھ نہیں کر سکے اور شہر سے 15کلو میٹر دور اس ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ وزیراعلیٰ کو معلوم ہے کہ اوڑی میں بھارت سرکار کا ڈرامہ اور مقبوضہ کشمیر میں110دن سے جاری دہشتگردی کے جواب میں مجاہدین کی تحریک کو جو تقویت ملی ہے اور بلوچستان سے را کے ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتار ی کے بعد جو انکشافات ہوئے ہیں ان کے بعد تو پورے ملک میں را کی ایسی کارروائیوں کی توقع تھی۔دہشتگردیہ چاہتے ہیں کہ گوادر کی بندر گاہ فعال نہ ہو اور نہ ہی اقتصادی راہداری پایہ تکمیل کوپہنچے کیونکہ اگر اگلے سال گوادر بندرگاہ فعال ہوجاتی ہے تو پہلے ہی سال دس لاکھ ٹن کارگو کی گزر گاہ ہوگی۔ ایک یہ بھی سوال ہے کہ اس کالج کے تربیت یافتہ اہلکاروں کو دس دن کی رخصت پر انکے گھروں کو بھیجا گیا تھالیکن کالج انتظامیہ نے فون کر کے پانچ روز پہلے ہی انہیں کیوںبلا لیا۔ اسی حوالے سے آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن کے مطابق کچھ پولیس کے لوگ دہشتگردوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اداروں کی یہ بھی رپورٹس ہیں کہ چار مختلف دہشتگرد تنظیموں نے مل کر یہ آپریشن کیا اور ان میں سے کچھ لوگ پانچ مہینے پہلے پاکستان میں داخل ہو چکے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم جانتے بوجھتے بھی اپنے اندر کے غداروں کو ختم کیوں نہیں کرتے ؟ سیکورٹی میں غفلت پر ٹریننگ سینٹر کے کمانڈنٹ، ڈپٹی کمانڈنٹ اور ڈی ایس پی کو معطل کرنا 61خاندانوں کے خون کی قیمت نہیںہوسکتی؟
اس سانحے سے بھی بڑے سیاسی سانحات رونما ہورہے ہیں ان سانحات نے شہریوں کو نہ صرف نفسیاتی مریض بنا دیا ہے بلکہ قوم کا جینا بھی حرام کیا ہوا ہے۔ یہ شہری نصف صدی سے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی شاہ خرچیوں کی بھینٹ چڑھ رہے تھے لیکن اس وقت یہ حکمران اور سیاستدان جس گراوٹ کا شکار ہیں وہ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دی جا رہی ہیں، عمران خان، اپوزیشن کا مولا جٹ بنے ہوئے ہیں، نوازشریف بادشاہوں کی آخری کرسی پر براجمان ہیں۔ انکے وزیرعمران خان پر منشیات استعمال کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں، شیخ رشید دفعہ 144کے 144 ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دےرہے ہیں۔ خواجہ سعد عمران خان کو بال ٹھاکرے پکار رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر شہباز شریف کے خطاب جس میں وہ آصف زرداری کو چوک میں لٹکانے کی باتیں کر رہے ہیں بہت ریٹنگ لے رہا ہے۔ جمعرات کے روز اسلام آباد میںپی ٹی آئی کے یوتھ کنونشن پر ایف سی اور پولیس اہلکاروںنے دھاوا بول کر کارکنوں پر تشدد کیا، خواتین کو گھسیٹا گیا اور درجنوں کارکن گرفتار کر لئے گئے۔ جمعہ کے روز پی ٹی آئی نے ملک بھر میںاحتجاج کا اعلان اور شیخ رشید نے لال حویلی میں جلسے کا اعلان کیا اور پورے پنڈی شہر کو کنٹینروں سے بند کر دیا گیا جبکہ پورا ملک مفلوج بنا دیا گیا ہے۔یہ کونسی جمہوریت ہے؟ لوگوں کے کنٹینر قبضے میں لے لئے گئے ہیں۔ شہروں کی بندش سے نہ حکمرانوں کو فرق پڑتا ہے اور نہ ہی سیاستد انوں کو وہ تو تماشے دکھا رہے ہیں۔ دوسری طرف غیر ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ جلتی پر تیل ڈال رہا ہے جبکہ پاناما کے متاثرین کو بچانے کے الزامات لگا ئے جارہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں حکمراں اور سیاستدان کپڑے جھاڑ کر نیا کاروبار شروع کر دیں گے مگر عوام کو ایک مستقل اذیت کی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے نہ وہ کاروبار کر سکتے ہیں نہ بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں۔ ان دھرنوں اور خراب حالات کی وجہ سے ا سٹاک ایکسچینج کے 3سو ارب ڈوب چکے ہیں۔ ابھی دھرنا ہوا نہیں اسٹاک مارکیٹ نیچے آرہی ہے۔ دفاتر ہیں تو وہاں لوگ کام چھوڑ کر یہ ڈسکس کر رہے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا اور تو اور اس سیاسی تماشے پر بکیوں نے جوا شروع کررکھا ہے۔پورے ملک میں ایک لرزہ طاری ہے۔ عوام ان سب حکمرانوں اور سیاستدانوں سے پوچھتے ہیں کہ آخر ان کا کیا قصور ہے، اپنے اپنے مفادات کیلئے اُن کا استحصال کیوں کیا جارہا ہے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون حکمراںہے، کیوں کہ انہیں نہ بجلی ملے گی، نہ روٹی، تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولتوں کے خواب کبھی پورے نہیں ہونگے، اور نہ ہی کبھی بددیانت حکمرانوں کی وجہ سے ملک میں معاشی استحکام آ سکتا ہے۔ اسلئے خدا راہ عوام کے ووٹ کے نام پر سیاسی دکانیں بند کریں اور آخر میں عوام کی طرف سے وزیراعظم پاکستان سے یہ کہنا ہے کہ اگر حضرت عمر فاروق ؓسے ایک بدو اٹھ کر سوال کر سکتا ہے اور وہ اپنی صورتحال کلیئر کرتے ہیں تو آپ پاناما لیکس کے حوالے سے اپنے آپ کو احتساب کیلئے کیوں پیش نہیں کرسکتے؟
.