• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاوید اقبال‘ فرزند اقبال‘ فخر اقبال۔ جناح ا وراقبال برصغیرکے وہ عظیم رہنما تھے کہ جس نے بھی ان کے اطوار اپنائے وہ دنیائوں میں سرخرو ٹھہرا اور عزت سے نوازا گیا‘ اس کی قدر و منزلت کی گئی‘ جس نے ان رہنمائوں کی معیت میں چند گھنٹوں کا سفر اختیار کیا‘ جلسے میں شرکت کی‘ ان کے ارشادات سنے‘ حتیٰ کہ صرف ان سے مصافحہ کر لیا‘ ہاتھ ملا لیا وہ بھی اعزاز کا مستحق ہو گیا۔ جاوید اقبال تو اقبال کے فرزند تھے‘ ان کی آغوش میں کھیلے‘ ان کے بستر میں سوئے‘ ان کی محبت کا زیادہ حصہ انہوں نے پایا‘ حتیٰ کہ ان کی اہم ترین تصنیف جاوید اقبال کے نام پر ’’جاوید نامہ‘‘ کہلائی اور کچھ نہ ہوتا تو صرف یہ تصنیف ہی جاوید کو رہتی دنیا میں مشہور اور نامور رکھتی۔ اوائل عمر میں قائداعظم سے ملے‘ ان کی شفقت سے مستفید ہوئے‘ نہرو کا استقبال کیا‘ ان سے کم عمری کی زبان میں باتیں کیں‘ ان کا اعزاز‘ احترام صرف اقبال کا فرزند ہونے کی نسبت سے ہی نہیں ہے‘ وہ خود بھی روشن باب اور چمکتا ستارہ ہیں جو قیام پاکستان سے 3اکتوبر 2015ء تک پاکستان کے افق پر جگمگاتا رہا‘ روشنی دیتا رہا۔ جاوید اقبال کو دنیا بیسویں صدی کے اہم فلسفی‘ دانشور‘ مصنف اور اقبال کے شارع کے طور پر یاد رکھے گی۔ بچپنے میں ماں اور باپ دونوں کی شفقت و رہنمائی سے محروم ہو جانے والا جاوید اقبال یتیمی میں پل کر جوان ہوا‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ بیرسٹر ہوا‘ پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر کہلوایا‘ وکالت کا پیشہ اختیار کیا تو وکالت میں نامور بھی تھا نیک نام بھی‘ ہائیکورٹ کا جج بنا‘ چیف جسٹس ہوا‘ سپریم کورٹ سی اعلیٰ ترین عدالت‘ عدالت عظمیٰ میں خدمات انجام دیں‘ انصاف کے معاملے اور قانون کی تشریح میں کسی کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ وہ اقبال کے فلسفہ خودی کی مجسم تشریح تھا۔ ’’خودی‘‘ کو بیچا نہ ’’خودداری‘‘ کو ہاتھ سے جانے دیا۔ اقبال کا فرزند ہونا بجائے خود بڑا اعزاز تھا جو قدرت کی طرف سے اسے حاصل ہوا۔ پھر ذاتی محنت‘ لیاقت اور ذہانت سے جو کچھ تخلیق کیا وہ اس کا کارنامہ ہے‘ جس سے ایک دنیا مستفید ہوئی اور ہوتی رہے گی۔ یہ دریش منش‘ سادہ فطرت انسان تھے‘ جو دل میں ہوا وہی زبان پر آیا‘ تصنع نہ بناوٹ‘ بس صاف گوئی او ربے ساختہ پن‘ محفل کا شوق نہ تھا مگر محفل کی جان بھی تھے۔ مزاح سے لطف لیتے اور مزاح پید ابھی کرتے‘ تحریر و تقریر دونوں میں رواں‘ اقبال کے نقاد بھی تھے‘ انہیں جب اختیار کیا تو پورے غور و فکر اور پرکھ کے بعد‘ لکیر کے فقیر نہ تھے۔ باپ سے محبت تو تھی ہی لیکن ڈھلتی عمر کے ساتھ جوں جوں تجربہ‘ مشاہدہ اور علم میں ترقی ہوتی گئی‘ اسی نسبت سے اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب وہ انہیں ’’حضرت اقبال‘‘ حضرت علامہ کہہ کر پکارتے۔ 91 ویں سالگرہ سے دو دن پہلے انتقال فرمایا‘ طویل عمر پائی‘ خالق حقیقی نے انہیں معذوری اور دوسروں کا دست نگر ہونے سے بچائے رکھا‘ آخری وقت تک نظر آنے میں صحت مند تھے‘ چہرے مہرے سے بشاش نظر آتے۔
رمضان المبارک سے چند دن پہلے ان سے آخری ملاقات ہوئی‘ حاجی اسلم صاحب برطانوی شہریت کے ساتھ پاکستان سے محبت کرتے اور فیصل آباد کے مستقل رہائشی ہیں‘ ٹیکسٹائل کا بزنس او رکچھ ایکسپورٹ ‘ اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹا سا روزنامہ بھی نکالا کرتے ہیں‘ ریسرچ کا شوق رکھتے ہیں‘ چند ریفرنس بکس بھی ترتیب دی ہیں۔ ا ن کی آخری کتاب ’’1947ء میں لدھیانہ کے مسلمانوں پر کیا گزری؟‘‘ میں تقسیم ہند کے حوالے سے لدھیانوی مسلمانوں پر گزرنے والی قیامت کا ذکر ہے۔ علامہ اقبال کی تیسری بیوی ’’سردار بیگم‘‘ لدھیانہ سے تعلق رکھتی تھیں‘ مصنف نے ان کے خاندان کو کھوج نکالا‘ بیگم صاحبہ کی بڑی سی تصویر بھی حاصل کر لی اور خاندان کے حالات و واقعات بھی۔ دو تین سال پہلے انہی کے اصرار پر ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے ملاقات کیلئے گیا تو حاجی صاحب بھی ہمراہ تھے۔ ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے‘ طویل نشست رہی‘ شاید ڈھائی تین گھنٹے‘ ایسی پرلطف‘ بامعنی‘ معلوماتی اور علمی گفتگو بہت کم نصیب ہوتی ہے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب سے یک طرفہ تعارف اپنے بچپن سے تھا لیکن پہلی ملاقات ان کے لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس بننے کے بعد ہوئی اور پھر سینیٹ میں چھ سال اکٹھے گزارے‘ جس سے شناسائی تعلق میں بدل گئی۔ اسی ملاقات میں ’’1947ء میں لدھیانہ میں مسلمانوں پر کیا گزری؟‘‘ نامی کتاب کا ذکر ہوا‘ حاجی صاہب نے ابتدائی مسودہ اور ڈاکٹر صاحب کی سوتیلی والدہ سردار بیگم کی تصویر اور ان پر لکھے گئے اوراق دکھائے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی دلچسپی کا اظہار یا اور کافی دیر تک اپنے خاندان کے حالات و واقعات کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے کتاب مکمل ہونے پر کاپی بھیجنے کیلے کہا اور کتاب پر نوٹ لکھنے پر بھی رضامندی ظاہر کر دی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب سے آخری ملاقات رمضان المبارک شروع ہونے سے چند دن پہلے ہوئی‘ یہ بھی طویل ملاقات تھی‘ ان کی ’’سٹڈی‘‘ میں کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے ان سے ملاقات کا شرف حاصل رہا‘ یہ آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد راقم بھائی بہنوں سے ملنے اور اپنے بھتیجے ابراہیم خالد کی شادی میں شرکت کیلئے رمضان المبارک کے آخر میں امریکا چلا گیا‘ پاکستان واپسی ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کو گزرے تین دن ہو چکے تھے‘ تعزیت کیلئے پہنچا تو وہی کمرہ تھا جہاں جانے سے پہلے ان سے آخری ملاقات ہوئی‘ اس کرسی پر اب ’’ولید اقبال‘‘ تشریف رکھتے تھے‘ جس پر آخری مرتبہ جسٹس جاوید اقبال کو بیٹھے دیکھا۔ آخری ملاقات میں کہنے لگے اب میں دوستوں سے ملاقات سے گریز کرتا ہوں‘ اس لئے کہ میری فوری یادداشت بہت خراب ہو گئی ہے‘ پرانی باتیں‘ پرانی چیزیں تو سب یاد ہیں لیکن سامنے کی چیزیں‘ قریب کی باتیں بھول جاتا ہوں‘ بلکہ جب سامنے بیٹھے دوست کے نام اور اس سے تعلق کو بھول جاتا ہوں تو مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے اور دوست کو بھی خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ باتوں میں بھٹوکا ذکر ہوا تو ’’بولے‘‘ لوگ بھٹو کو ’’ایول جینئس‘‘(Evil Genius )کہتے ہیں‘ جینئس تو ’’ایول‘‘ (Evil)نہیں ہوتا۔ بھٹو صرف بیوقوف شخص تھا‘ چالاک مگر بیوقوف‘ وہ بھی ’’پاور سیکر‘‘ (Power Seeker) تھا‘ اقتدار کے لالچ میں ہر وقت تیار‘ اسے اسلام کا کچھ علم تھا نہ سوشلزم کے بارے جانتا تھا۔ اسلامی سوشلزم کا نعرہ دراصل عوام کے ساتھ مذاق تھا۔ مجھے کئی دفعہ خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مذاق کیا۔ ملاقا ت طویل ہو چلی تھی‘ بار بار ان کے تھک جانے اور کمرے میں گرمی کا خیال آتا‘ جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پنکھا تک بند تھا مگر بات کے تسلسل‘ ان کے انہماک کی وجہ سے خاموش رہنا پڑا۔ ذرا وقفہ آیا تو اجازت چاہی‘ ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ ہی کمرے سے باہر آئے۔ گھر کے لان کی طرف رخ کر کے مخاطب ہوئے ’’ایک مشورہ دیجئے‘اس کے بعد لان میں رکھے تین چار مجسموں کی طرف اشارہ کیا جو مولانا روم کے رقص کرتے درویشوں کے تھے‘ یہ مورتیاں ترکی سے تحفے میں آئی ہیں‘ سوچتا ہوں میرے بعد یہ ضائع نہ ہو جائیں‘ انہیں کہاں بھیجوں؟ ‘‘ عرض کیا ’’یہیں رہنے دیجئے‘ آپ کی اولاد سے بہتر کوئی بھی ان کی حفاظت نہیں کر سکے گا‘ وہی ہیں مولانا روم کے عاشقوں کے وارث۔
ڈاکٹر صاحب سادہ دل‘ صاف گو تھے‘ سہیل وڑائچ نے ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ پروگرام میں سوال کیا کہ ’’آپ سب سے زیادہ کس سے متاثر ہیں؟‘‘ جواب دیا ’’آپ حیران ہوں گے‘ میں اپنی اہلیہ سے متاثر ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات رکھنے والے سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کا نام ہمیشہ محبت اور احترام سے لیتے اور ان کی رائے کا احترام کرتے‘ حتیٰ کہ اپنی وصیت میں اس کا ثبوت بھی فراہم کر دیا۔ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال معروف اشاعتی ادارے کے مالک حاجی فیروز دین خاندان کی بیٹی ہیں۔ لاہور کے ایک غیرمعروف قبرستان میں اس خاندان کی قبروں کا احاطہ ہے‘ جہاں بیگم جاوید اقبال نے اپنی والدہ کے قدموں میں اپنے لئے جگہ مخصوص کر رکھی ہے‘ ڈاکٹر صاحب وصیت کر گئے کہ ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ کے خاندان سے اجازت لے کر‘ انہیں بھی اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں ناصرہ بیگم نے اپنی قبر کیلئے جگہ مخصوص کر رکھی ہے۔ چنانچہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال آج اسی جگہ مدفون ہیں‘ یہ ان کی اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ محبت اور وفاداری کا نہ ختم ہونے والا پیمان ہے۔ اب انہیں اپنے مہربان والد ‘ محبت کرنے والی والدہ سے بچھڑے 80 برس ہونے کو آئے‘ ادھر والدین منتظر‘ ادھر بیٹا بے تاب‘ چنانچہ 3 اکتوبر 2015ء صبح آٹھ بجے اپنے بچوں کو پاکستان کے حوالے کر کے آسمانوں میں والدین سے ملنے کیلئے روانہ ہوئے‘ ہمیشہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے کیلئے۔ ’’رُود‘‘ … ’’زندہ رُود‘‘ سے مل گیا۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔
تازہ ترین