• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقوام متحدہ میں کشمیر اور فلسطین پر آواز بلند کرنے والے احمد شاہ پطرس بخاری اور قدرت اللہ شہاب جیسے اولوالعزم افراد اب موجود نہیں جو 50 کے عشرے میں کشمیر کے علاوہ فلسطین ، تیونس ، مراکش اور الجزائر کے معاملات میں عرب ممالک کوقرارداد کی تحریریں ، تقاریر اور قانونی رہنمائی فراہم کرنےکے لئے موجود تھے۔ پطرس بخاری کے انگریزی خطاب اور ان کے تراجم ادبی اور سفارتی شاہ کار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے بھیس بدل کر فلسطین سے یونیسکو کے زیر اہتمام قائم کردہ اسکولوں سے 113شر انگیز کتابوں کے نسخے حاصل کئے جو اسرائیلیوں نے یونیسکو کے مقرر کردہ نصاب کی جگہ زبردستی رائج کر رکھے تھے جن میں انتہائی گستاخانہ الفاظ درج تھے۔ یہ لوگ ہمارے محسنین ہیں اور آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ ہمیں ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے صرف قرار دادیں منظور کرانا تقریریں کرنا کام نہیں۔پاکستان کی حکومت کا کشمیر کے بارے میںسنجیدگی کا اندازہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ کے رویےہی سے کیاجاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی بہترین سفارت کار ہیں۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان یورپ میں انتہائی سرگرم ہیں۔ چوہدری محمد سرور ، مشاہد حسین اور عاصمہ جہانگیر کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں کشمیر کے موضوع پر وظیفہ مقرر کرکے PHD تیار کئے جائیں جو انگریزی میں بین الاقوامی سطح کے جرائد میں مسلسل مضامین شائع کرائیں۔ جیسا کہ انڈیا کررہا ہے۔مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی مسئلہ کشمیر میں اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سرگرم بھی ہیں۔ اہل بھی اور سیاسی طور پر باشعور بھی۔ ناروے میں متحرک نوجوانوں کے درمیان تبادلہ خیال کے لئے Diskusjonsforum بے حد فعال ہے۔ کشمیر اسکنڈے نیوین کونسل 27نےاکتوبر کو پارلیمنٹ کے اطراف انتہائی پرجوش اور موثر احتجاجی مظاہرے کا بندوبست کیا۔ کونسل کے بیدار اور سرگرم قائد نےنارویجین پارلیمنٹ کے متعدد سیاست دانوں اور یورپین پارلیمنٹ برسلز میں انسانی حقوق کےنمائندوں کو اپنی انتھک کاوشوں سے کشمیر کے درد سے ہم آشنا کردیا ہے۔ اسلامک کلچر سینٹر 5؍فروری کو کشمیر وں سے یکجہتی کے لئے ایک سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہے۔ سینٹر نے مسئلہ کشمیر ، فلسطین اور چیچن پر نارویجین زبان میں تحریک آزادی کے حوالے سے بہترین مواد تیار کرکے تقسیم کیا تھا۔ لیکن اب سینٹر کو مسئلہ کشمیر پر نئے اعداد و شمار کے مطابق نئے محاذوں کو دریافت کرنا ہوگا۔پاکستانی ایک جذباتی قوم ہے۔ جو وقتی ابال ، جذبات اور جوش جنون میں ہتھیلی پر سرسوں جماسکتی ہے۔ مگر لمبی مدت تک کسی مسئلے پر سنجیدہ اور مستقل بنیادوں پر کوئی انقلابی کام نہیں کرسکتی۔ضرورت ہے کہ مغربی ممالک میں مقیم کمیونٹی کشمیر کی تازہ ترین صورت حال کے مطابق مغربی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے پارلیمنٹ ، میڈیا، تھنک ٹینکس اور یونیورسٹی میں اپنے حاضر و سائل اور ذرائع استعمال کرے۔ انڈیا انسانی حقوق کے محاذ پر مظالم کی وجہ سے انتہائی کمزور ہے۔ وہ کشمیری تحریک آزادی کو دہشت گردی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر شاید آپ مغرب میں کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔ اس لئے کہ مغربی ممالک اپنی ثقافت اور علمی تربیت کی وجہ سے مذہب کے مقابلے میں انسانی حقوق کی پامالی پر زیادہ آسانی سے متحرک کئے جاسکتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں آپ کا کام کافی حد تک آسان کرچکی ہیں۔ اعداد و شمار بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کی وجہ سے آپ کے حق میں ہیں۔ انسانیت سے محبت کا پیغام تو عام کیا جاسکتا ہے۔ بس آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ متحد ہوکر کشمیریوں کی آواز کو یورپ میں عام کردیں۔تمام یورپین ممالک میں پاکستانی سفارت خانے کشمیر کے مسئلے پر کسی قسم کا موثر مواد فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اس لئے کہ یہ اس کی ترجیحات میں شامل نہیں لیکن یورپ کے تمام دارالحکومتوں میں کشمیر کو نسل ، کمیٹی یا محاذ یقیناً موجود ہوں گےکیا وہ یورپ میں انگریزی اور مقامی زبانوں میں 1947ء سے مقبوضہ کشمیر کی تاریخ، اقوام متحدہ کی قراردادوں ، جدوجہد آزادی اور بھارت کے ظلم و تشدد پر بروشر چھپوا کر سفارت خانوں اور اجتماعات میں فراہم نہیں کرسکتے۔ امریکہ اور برطانیہ میں اس موضوع پر لامحدود مواد موجود ہے۔ جس سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہمت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے۔ فلسطین پر کام مشعل راہ بن سکتا ہے۔ جس نے یورپ اور امریکہ میں زمینی سطح پر فلسطین کے لئے ہمدردی اور بیداری پیدا کردی ہے۔تمام یورپ میں پاکستانیوں کو بلدیاتی نظام اور پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہےوہ اپنے پارٹی پروگرام کے علاوہ کشمیر پر آواز بلند کرسکتے ہیں۔ 22سال قبل 23؍مارچ 1994ء کو RODVALGALLIANSE کے اطہر علی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ، قتل عام اور جبروتشدد کے خلاف نارویجین پارلیمان میں خطاب کو پارلیمانی ریکارڈ کا حصہ بنادیا تھا۔ انہوں نے وزیر خارجہ سے سوال کیا تھا کہ انڈیا کی جانب سے اقوام متحدہ کی حق رائے دہی کی قراردادوں کو مسلسل نظرانداز کرنے پر نارویجین حکومت کیا اقدامات کررہی ہے۔ اس کے بعد کشمیر کا مسئلہ 116 مرتبہ وقفہ سوالات میں اٹھایا جاچکا ہے۔ حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے تو آج پاکستانی نژاد سیاست دان نارویجین پارلیمان میں کشمیر کی وکالت کیوں نہیں کرسکتے؟جب برما میں روہنگین مسلمانوں کے لئے اوسلو کے نوبل انسٹی ٹیوٹ میں پیس کانفرنس منعقد ہوسکتی ہے تو کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوج اور حکومت کی بربریت کے لئے کانفرنس کیوں نہیں کرائی جاسکتی۔


.
تازہ ترین