’’معاشرے میں رشوت ستانی، نفسا نفسی اور کنبہ پروری کا اس قدر دور دورہ تھا کہ ہماری اخلاقی اور سماجی زندگی تیزی سے پستی کی طرف جا رہی تھی ۔ لوگوں میں بد دلی اور مایوسی پھیل چکی تھی ، اور حکومت کے نظم و نسق کی اہلیت پر سے اعتماد اٹھ چکا تھا ۔ خصوصاََ غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق اور خواہشات کو جس بے دردی کے ساتھ نظر انداز کیا گیا ، اسکی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہی غریب اور محنت کش لوگ جن کے بل بوتے پر معاشی اور اقتصادی میدان میں سرمایہ داروں کیلئے بے انتہا ترقی کے مواقع پیدا ہوئے اور کارخانوں کی تعداد کئی گناہ بڑھ گئی لیکن ان کی ترقی کیلئے جو ہماری آبادی کی اکثریت ہے، مختلف حکومتوں نے کوئی قدم نہ اٹھایا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غربت اور افلاس ہمارے ملک کے محنت کش طبقہ کو گھن کی طرح کھانے لگے۔ نوکر شاہی اور حکومت کے اہل کار بجائے اس کے وہ لوگوں کی بہبود کی طرف توجہ دیتے، انہوں نے سیاسی کشمکش میں سیاست دانوں کے ساتھ اپنے آپ کو بری طرح الجھا دیا اور سیاست دانوں کے شانہ بشانہ اس آزاد ملک کے خادم بننے کی بجائے اس کے حاکم بن گئے ۔ اس وجہ سے ملک غیر یقینی صورتحال ،سیاسی ماحول اور نازک حالات سے دو چار ہوگیا اور ہمارے قومی مسائل میں اضطراب کی کیفیت روز بروز نمایاںہوتی چلی گئی۔۔ ان سیاسی حقیقتوں کے پیش نظر اور عظیم ملی مفاد کیلئے جن کا کسی حد تک تجزیہ کر دیا گیا ہے۔یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت اور ایک نیا سیاسی لائحہ عمل اور دستور اس قوم اور ملت کیلئے اشد ضروری ہے۔یہ اقتباس ماضی میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے اس اعلان کا حصہ ہے جس کے تحت اس جماعت نے طاقت کا سرچشمہ عوام۔جمہوریت ہماری سیاست۔سوشلزم ہماری حقیقت۔اور اسلام ہمارا دین ہے کے اصول کا اعلان کر کے عوام میں پذیرائی حاصل کرنا شروع کی تھی۔یہ چاروں اصول جماعت میں مختلف الخیال افراد کو مطمین کر رہے تھے اور پھر روٹی کپڑا اور مکان کے نعرےنے جادو جگا دیا تھا۔ اس نعرہ کی بدولت پیپلز پارٹی سیاست کو محلوں سے گلی کوچوں اور تھڑوں کے ساتھ ساتھ حجام کی دکان تک لے آئی تھی۔روایتی سیاست دان پریشان تھے ۔عوام میں شعور بیدار ہو رہا تھا۔بڑے بڑے بت گر رہے تھے۔ سیاسی جماعت کے ساتھ عوام کا ناطہ قائم ہو رہا تھا، عوام اپنے خوابوں کی تعبیر کا احساس کر چکے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ایک خاموش اور پر امن انقلاب برپا ہونے جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مقصد ان لوگوں کی زبانی اسلامی مملکت میں سوشلزم کا راج اور سوشلسٹ نظام کا قیام کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی احساس تھا کہ غیر طبقاتی معاشرہ تشکیل پائے گا، معاشی اور معاشرتی انصاف قائم ہو گا مراعات ہر ایک کیلئے ہوں گی۔ عوام کی اکثریت کا خیال تھا کہ یہ نئی سیاسی جماعت عوام کے اتحاد کا وسیلہ بنے گی‘‘تقریباََ 48سال میں یہ جماعت 4مرتبہ حکمران جماعت بننے میں کامیاب ہوئی اس کے ادوار اقتدار ، اسکی تنظیم، اندرونی کہانی اور پالیسوں پر عمل درآمد پر اس وقت کسی بحث کی ضرورت نہیں ۔ بات تو یہ ہے کہ لاہور کے حلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں بیرسٹر عامر حسن نے اس جماعت کے امیدوار کے طور پر 819ووٹ حاصل کئے۔ اس حلقہ کے بعض علاقوں سے ذوالفقار علی بھٹو نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو شکست دی تھی۔ خود بے نظیر بھٹو بھی یہاں سے جیت چکی ہیں۔ لاہور شہر میں ڈاکٹر مبشرحسن، معراج خالد، جے اے رحیم، رسول بخش تالپور،شیخ محمد رشید، خورشید حسن مہر، غلام مصطفی جتوئی، مصطفی کھر، حنیف رامے، ممتاز بھٹو اور دیگر کئی ممتاز شخصیات کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو نے جس جماعت کے ذریعہ عوام کے دلوں پر راج کیا وہاں اس جماعت کے حقیقی سربراہ آصف علی زرداری کی کوئی تصویر بھی آویزاں نہ کرنا چاہتا ہو تو اس جماعت کا کیا بچ گیا۔انتخاب تو جماعتی تھا۔ سیاسی کارکن غیر متحرک توہو سکتے ہیں مگر غیر سیاسی نہیں ۔ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نے تقریباََ ڈیڑھ لاکھ ووٹ حاصل کئے جو غالباََ کل ووٹ کا 50%سے کم ہے۔ ایسے میں جبکہ پیپلز پارٹی تقریباََ وقت کے دھارے کے ساتھ ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ میرے نزدیک ایک قومی نقصان کا سبب ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں ،آزادکشمیر ،گلگت بلتستان غرض پورے ملک میں موجود ایک سیاسی قوت، کسی حد تک نظریہ اگر مفقود ہوجائے تو کسی کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے یہ انتخابی سرگرمیاں لمحہ فکریہ لے کر آئی ہیں اور عمران خان کیلئے بھی۔ وہ تو روایتی سیاست کے خلاف ہیں۔اگر پیپلز پارٹی اپنے پروگرام اور پرفارمنس کے حوالہ سے تاریخ میں گم ہو رہی ہے تو مسلم لیگ کو بھی اپنی صفوں میں تنظیمی کمزوریوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے جبکہ’’ صاف چلی شفاف چلی‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والوں کو صاف اور شفاف ہی ہونا پڑے گا۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ کم از کم پنجاب کی حد تک دو جماعتی نظام پھرقائم ہو گیا ہے مگر زبان کی شدت،جارحانہ رویہ اور عوام سے دور رہنے کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر پیپلز پارٹی کے انتخابی سیاست سے ختم ہونے پر دکھ ہے باوجودیکہ میں کبھی اس کا حمایتی نہ رہا مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے اس جماعت کیلئے خود سوزی کی، جیل کاٹی، جلا وطنی کی زندگی برداشت کی ، کوڑے کھائے، بے روزگار ہوئے ان کے نزدیک یہ ایک نظریاتی جماعت تھی مگر کیا کیا جائے ،فیریال تالپور، رحمان ملک، قیوم سومرواور بے شماردیگر ان کارکنوں کا مان‘‘قائم نہ رکھ سکے۔