• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے لوگ امیر ترین بننے کیلئے دن رات دولت کمانے میں مگن ہیں۔ ان افراد کے بلند و بالا محل، لگژری گاڑیاں اور کروز بوٹس، مہنگے ترین عالیشان کپڑے، زیورات، شاہانہ اخراجات اور ان کی پرتعیش طرز زندگی کی داستانیں عام ہیں لیکن ان ارب پتی شخصیات میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اربوں ڈالرکے مالک ہونے کے باوجود نہ صرف عام اور سادہ طرز زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ کفایت شعاری کے ساتھ اپنی دولت زندگی میں ہی انسانی خدمت اور فلاحی کاموں کیلئے وقف کردیتے ہیں۔ انہی شخصیات میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادے ولید بن طلال بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ساری دولت جو تقریباً 32 ارب ڈالرز بنتی ہے، انسانی خدمت کیلئے وقف کرکے دنیا میں انسانی فلاح و بہبود کیلئے سب سے زیادہ دولت وقف کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ 60 سالہ ولید بن طلال کا تعلق سعودی شاہی خاندان سے ہے اور وہ سعودی فرمانراں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز مرحوم کے بھتیجے ہیں۔
دنیا کی دیگر امیر ترین شخصیات میں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے اپنی دولت کا 95% اور دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص کیپٹل مارکیٹ کے بادشاہ وارن بوفٹ اپنی 99% دولت دنیا کے غریبوں کیلئے وقف کرچکے ہیں۔ ان دونوں نے 2010ء میں ’’دی گیونگ پلیج‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا چیریٹی ادارہ ’’بلینز کلب‘‘ قائم کیا ہے جس کی ممبر شپ کیلئے دو شرائط ہیں۔ پہلی شرط ارب پتی ہونا اور دوسری شرط اپنی کم از کم آدھی دولت چیرٹی کاموں کیلئے وقف کرنا ہے۔ 2013ء تک دنیا کی 115 ارب پتی شخصیات اب تک ’’بلینز کلب‘‘ کی ممبرشپ حاصل کر چکی ہیں جن میں امریکی بزنس مین مائیکل بلومبرگ، ہلٹن ہوٹل کے مالک بیرن ہلٹن، سارا بلیک لی، مائیکرو سافٹ کے بانی رکن پال ایلن جیسی شخصیات بھی شامل ہیں جو اپنی دولت کا نصف سے زیادہ حصہ عام لوگوں کیلئے وقف کرچکے ہیں۔ بل گیٹس نے دنیا کو پولیو سے پاک کرنے کیلئے اربوں روپے کی پولیو ویکسین فراہم کی اور آج پولیو کا یہ مہلک مرض دنیا کے صرف 3 ملکوں پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں رہ گیا ہے۔ پاکستان میں اس کی وجہ پولیو کے ورکرز پر حملے ہیں۔ دنیا کے ان ارب پتیوں میں زیادہ تر لوگ نمود و نمائش کے بجائے سادہ اور عام زندگی گزارنے کو پسند کرتے ہیں۔ مثلاً اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کیروٹن 1998ء میں گوگل میں صرف ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے آج 3 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک بن چکے ہیں لیکن وہ اب بھی 1986ء کی واکس ویگن خود ڈرائیو کرتے ہیں اور گزشتہ 30 سال سے ایک ہی مکان میں رہائش پذیر ہیں، 2012ء میں بچوں کی فرمائش پر انہیں ہنڈا اوڈیسے گاڑی دلوائی۔ ڈش نیٹ ورک کے بانی چارلی ایرگن جو 17.8 ارب ڈالر کے مالک ہیں، اپنے دفتر میں عام ملازمین کی طرح کام کرتے ہیں۔ چین کی ای کامرس کمپنی علی بابا ہولڈنگ کے بانی جیک ما 22.8 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ چین کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ہیں جو نمود و نمائش کے سخت مخالف اور لوگوں کو ذاتی زندگی سے دور رکھنے کے حامی ہیں۔ عظیم پریم جی بھارت کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں جو 16 ارب ڈالر کے اثاثے رکھنے کے باوجود فضائی سفر کی سستی ترین کلاس کا انتخاب کرتے ہیں اور گھر سے دفتر جانے کیلئے رکشہ کا استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شامل 7 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک واٹس ایپ کے بانی جان کوم انتہائی کفایت شعار شخص ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2014ء میں جب فیس بک نے 19 ارب ڈالر میںواٹس ایپ خریدی تو جان کوم نے فیس بک مالکان سے کہا کہ وہ بارسلونا فلائٹ کا انعامی ٹکٹ ضائع نہیں کرنا چاہتے، اس لئے ٹکٹ منسوخ ہونے سے قبل معاہدہ کرلیا جائے۔ اسی طرح 29 ارب ڈالر سے زائد اثاثے رکھنے والے دنیا کے امیر ترین شخص گوگل کے شریک بانی سرگئی برن انتہائی کفایت شعار ہیں جو آسائشوں کے بغیر رہنا پسند کرتے ہیں اور کھانا ضائع کرنے کے سخت مخالف ہیں۔ امریکہ کی سلیکون ویلی میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ایپل کے چیف ایگزیکٹو نے اعلان کیا ہے کہ وہ موت سے قبل اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ خیراتی اداروں کیلئے وقف کردیں گے۔
سعودی شاہی خاندان کے شہزادے ولید بن طلال جو کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھتے اورکنگڈم ہولڈنگ جس نے دنیا کے کئی بڑے ہوٹلوں جارج فائیو پیرس، سیوے لندن، روتانہ، فورسیزنز، فیئر مائونٹ، رافیل سمیت میڈیا، رئیل اسٹیٹ، سٹی گروپ، ٹوئٹر اور ایپل جیسی نمایاں کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہے کے سربراہ ہیں، نے ’’الولید فلاح انسانیت‘‘ (Philanthropies Alwaleed) کیلئے 32 ارب ڈالر وقف کرکے دنیا کی تمام امیر ترین شخصیات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ فیصلہ انہوں نے مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس کے 1997ء میں قائم ہونے والے فلاحی ادارے بل گیٹس فائونڈیشن سے متاثر ہوکر کیا اور اب تک اسلامی عقائد کی بنیاد پر 3.5 ارب ڈالر چیریٹی کے کاموں پر خرچ کرچکے ہیں۔ شہزادے ولید بن طلال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2009ء میں دنیا کے معروف میگزین ’’فوربس‘‘ جو دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست بنارہا تھا، کے رپورٹر کو ایک ہفتے کیلئے اپنے ریاض کے 420 کمروں کے محل میں دعوت دی اور انہیں اپنی اہلیہ پرنسس امیرہ کے ساتھ اسپیشل بوئنگ 747 طیارے میں قاہرہ لے کرگئے۔ 2013ء میں فوربس میگزین نے ولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت 20 ارب ڈالر بتائی اور انہیں دنیا کا 26 واں امیر ترین شخص قرار دیا لیکن سعودی شہزادے ولید بن طلال کے مطابق فوربس نے ان کے اثاثوں کی مالیت نہایت کم بتائی ہے۔ ولید بن طلال کا کہنا ہے کہ وہ سیلف میڈ ہیں کیونکہ ان کے والد نے انہیں صرف 30 ہزار ڈالر کیش اور 3 لاکھ ڈالر کا قرض دیا تھا جس سے انہوں نے تعمیرات کا بزنس شروع کیا اور 1991ء میں سٹی بینک جو مالی مشکلات کا شکار تھا، میں سرمایہ کاری کرکے اسے مالی بحران سے نکالا ۔ یاد رہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز جو اُس وقت سٹی بینک سعودی عرب میں اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے، نے سعودی شہزادے ولید بن طلال کو سٹی بینک میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد انکے پرنس طلال سے نہایت قریبی تعلقات ہوگئے تھے۔ سٹی بینک کے بعد ولید بن طلال نے دنیا کے کئی بڑی کمپنیاں جو مالی بحران کا شکار تھیں، میں سرمایہ کاری کرکے اپنی دولت میں تیزی سے اضافہ کیا۔ سعودی شہزادے ولید بن طلال لبرل خیال کے مالک ہیں۔ انہوں نے 18 سالہ خوبرو امیرہ سے جو ایک اسکول پیپر کیلئے انٹرویو کیلئے آئی تھیں، سے شادی کی اور پبلک میں آئے۔ امیرہ خواتین کو اختیارات دینے کی حامی ہیں۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے۔ ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور زکوۃ و خیرات دینے سے انسان کے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ پاکستان کا شمار دنیا میں چیریٹی کرنے والے5 بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ پاکستان سینٹر آف فلنتھراپی (Pakistan Centre of Philanthropy) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خیرات اور زکوۃ کی مد میں سالانہ تقریباً 240 ارب روپے کے عطیات دیئے جاتے ہیں جبکہ صرف رمضان المبارک میں زکوۃ، خیرات اور فطرے کی شکل میں 150 ارب روپے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اس سال حکومت کی طرف سے عسکریت و شدت پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں پر زکوۃ و فطرہ اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی کی وجہ سے معاشرے میں اچھی ساکھ رکھنے والی فلاحی تنظیموں کو زیادہ عطیات ملے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم گیونگ پلیج کی طرح پاکستان میں بھی بلینر کلب بنائیں جس کی شرائط بل گیٹس کے دنیا کے سب سے بڑے خیراتی ادارے دی گیونگ پلیج کی طرح ہوں جن میں بیرون ملک ارب پتی پاکستانیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے اور ہر ارب پتی اپنے نام سے ایک شعبے کو ’’اون‘‘ کرے جس میں تعلیم، صحت، منشیات کے عادی افراد کے علاج اور پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہو لتوں کے شعبے شامل ہوں۔
تازہ ترین