• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4؍اکتوبر 2015ء کی صبح،
اپنے ایک اجتماعی حوالے سے ہجر و جدائی کے ساتھ طلوع ہوئی، پاکستان کی ٹیلی وژنوں ا سکرینوں سے لے کر اخبارات کے صفحات پر یہ آبدیدہ سی کیفیت دکھائی دے رہی تھی۔ اسے محسوس بھی کیا جا سکتا تھا، دراصل اس سویر کے لبوں پر پیغام حزن و زیاں کی پپڑیاں جمی ہوئی تھیں اطلاع تھی، اے اصحاب پاکستان! تمہارے ڈاکٹر جاوید اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) اس دارفانی سے پردہ کر گئے ہیں!
انہوں نے آخری سانس تک، مزاحمت کے دموں کی لاج رکھی، اپنی بیماری کینسر سے لڑتے رہے، ہار نہ مانی تاآنکہ قادر مطلق کے اختیار نے زندگی کے نطق پر مہر سکوت ثبت کر دی!
اپنی طرز کے دانشور تھے!
تھے تو شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (رحمۃ اللہ علیہ) کے فرزند ارجمند، مگر پاکستانیوں نے انہیں ان کی اپنی تخلیقی جہتوں سے بھی شناخت کیا، تسلیم کیا، حضرت علامہ پر ’’زندہ رود‘‘ ہو یا اپنی خود نوشت’’اپنا گریبان چاک‘‘ کا جاودانی اظہار، دونوں پہلو متوازی خطوط کی صورت چلتے رہے!
فرزند اقبال اپنے مقام پہ ایستادہ رہا اور مفکر جاوید اقبال نے اپنے وجدانی فکر کا چراغ جلایا۔
اور یہ روایت ان لمحوں میں صداقت کا چراغ بن کے روشن ہو رہی ہے، بھلا کون سی؟ وہی جب حضرت دوراں اقبالؒ صاحب فراش تھے، آخری گھڑیوں کی دستک اور قدموں کی دبی دبی چاپوں کا آغاز ہو چکا تھا، حضرت کا لخت جگر جاوید اقبال، وقت کے رمز و کنایہ کے مفسر، اپنے والد گرامی کے اس کمرے میں داخل ہوئے، اقبال نہایت ہی مہین مہین سی آہٹ پر چونکے، نظر کی مقدار بھی انتقال کے مراحل میں تھی، پوچھا، کون ہے؟ جگر کے ٹکڑے نے عرض کیا ’’میں جاوید ہوں‘‘، اس عالم سُکر میں ہنسے، کیا شیرینی ہو گی، کہا ’’جاوید بن کے دکھائو تب جانیں‘‘
اور یہاں بات روک کر، پہلے اس آرزو کے اس اظہاریئے کو یاد کرتے ہیں جس نے اپنے اس جاوید کے لئے باپ علامہ محمد اقبال کے قلب سوز و ساز میں بسیرا کر رکھا تھا یعنی ’’جاوید بن کے دکھائو تب جانیں‘‘، باپ نے بیٹے کو اس طرح مخاطب کیا؎
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
اور جب نو عمر جاویدؒ نے اپنے والد گرامی سے کوئی پہلی فرمائش کی تب وہ لندن میں تھے، بیٹے کا پہلا خط موصول ہوا، جواباً اسے زندگی کے اسرار و رموز سے فیض یاب کیا، اپنے اشعار کے سرنامے پہ لکھا!
’’لندن میں جاوید کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط آنے پر‘‘ اور پھر شاعر مشرقؒ دل کے ٹکڑے سے گویا ہوئے:؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خالی ان سے ہوا دبستاں
تھی جن کی نگاہ تازیانہ
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
اس کا مذاق عارفانہ
جوہر میں ہو لا الٰہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
شاخ گل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ!
ڈاکٹر جاوید اقبالؒ نے’’جاوید‘‘ بن کے بھی دکھایا، ساری حیاتی شاخ گل پر پورے طمطراق، پورے عجز و وقار اور پورے قلب و ضمیرکے ساتھ چہکے مگر اپنے آشیانے میں خودی کے امام کو کبھی ایک لحظے کے لئے بھی خود سے جدا نہ کیا، افکار و نظریات کی جنگ یا ابلاغ میں کسی بزدلی، سمجھوتے ، خوف و منافقت اور شرارت کی بد صورتیوں اور بد کرداریوں سے سو فیصد متبرو منزہ رہے۔
وہ دنیا میں صاف ستھرے رہے،آلائشوں کی کسی کہانی کی ان کے ساتھ وابستگی کا میں نے کبھی نہ سنا نہ پڑھا، اسلام، کائنات اور فلسفہ حیات کے تناظر میں ان کے تدبر و فکر کا شاہکار اثاثہ ان کی تحریروں اور کتابوں میں ہمیشہ موجود رہے گا، ایک ایسا فیضان عام ان سے جاری ہے جس میں کسی قوم کی آئندہ نسلیں علم اور ارتقاء کےہفت خواں طے کرتی ہیں، ایک جج کی حیثیت سے ان کے فیصلے زندگی کے سربستہ رازوں کی ناقابل تصور گہرائیوں کو چھوتے ہیں، ایک ممتاز قانون دان اور ایک لبرل دانشور کے طور پر انہوں نے اپنے فیصلوں میں قانونی تہذیب کے ایسے ایسے روحانی پہلو آشکار کئے جو کسی ممکنہ حسین ترین معاشرے کے عملی خواب کی لازوال تعبیر کہے جا سکتے ہیں!
’’اپنا گریبان چاک‘‘ میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں حیرت کا باب وا کر گئے۔ عزیزی حامد میرؔ اور محترم ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے اپنے انداز میں اس جبرت کے بیانے سے پاکستانی عوام کی یادداشت کو ایک بار پھر جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ حامد میرؔ رقمطراز ہیں:’’ایک مرتبہ میں نے 4؍ اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر انہیں اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں مدعو کیا جس میں احمد رضا قصوری بھی موجود تھے۔ جاوید اقبال صاحب اسی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے جس نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دی یاد رہے کہ 1970ء میں جاوید اقبال صاحب نے لاہور سے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن بھی لڑا اور ہار گئے تھے لیکن جب میں نے بھٹو کی پھانسی کے متعلق سوال پوچھا تو جاوید اقبال صاحب نے کہا، ان کی دانست میں بھٹو کی پھانسی کی سزا درست نہ تھی۔ پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا اور بتایا کہ جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی وہ اپنے گھر میں سو رہے تھے، رات تین بجے انہیں محسوس ہوا کہ کسی نے ان کی چادر کھینچ کر پرے پھینکی، وہ ہڑبڑا کر بستر پر بیٹھ گئے، انہوں نے دیکھا کہ کھلے کالر اور کھلے کفوں کی قمیص اور شلوار پہنے بھٹو انہیں انگریزی میں کہہ رہے ہیں! ’’دیکھو انہوں نے میرے ساتھ کیا کر دیا‘‘۔ اور محترم ومکرم ڈاکٹر صفدر محمود کے ہاں اسی واقعہ کا ششدر پن ساکت کر دینے والے مزید لمحوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ فاضل ڈاکٹر لکھتے ہیں:’’ایک بار بھٹو صاحب کا ذکر چھڑا تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ’’بعض روحیں طاقتور ہوتی ہیں اور موت کے بعد بھی اپنا نشان چھوڑ جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ جس روز ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اس رات وہ اپنے بیڈ روم میں گہری نیند سو رہے تھے کہ اچانک زور دار کھڑاک سے کمرے کی کھڑکی کھلی۔ وہ ہڑبڑا کر بیدار ہوئے اور دیکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو پلنگ کی پائنتی کی جانب کھڑے ہیں، ان کا جسم لہولہان ہے اور کپڑے تار تار، پھر مجھے کہتے ہیں: ’’دیکھو انہوں نے میرا کیا حال کیا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ غائب ہو جاتے ہیں اور میں فوراً ٹائم نوٹ کرتا ہوں۔ طلوع آفتاب بھٹو کی پھانسی کی خبر لاتا ہے۔ میں بھٹو کی پھانسی کا وقت معلوم کر کے اپنے لکھے ہوئے وقت سے موازنہ کرتا ہوں تو یہ وہی وقت تھا جب اسے پھانسی چڑھایا گیا۔ یہ بتا کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ’’میرا بھٹو سے کوئی ایسا قریبی تعلق نہیں تھا، ہم سیاسی حوالے سے ایک دوسرے کے مخالف تھے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہوا؟ ڈاکٹر صاحب خاموش ہوئے تو میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو یقین ہے کہ یہ خواب نہیں تھا بلکہ آپ نے کھلی آنکھوں سے بھٹو کو دیکھا‘‘، انہوں نے تصدیق کی کہ ’’یہ خواب ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ ایک سچا واقعہ ہے‘‘، میں خود بھی اس واقعہ پر حیران ہوں اور کچھ مزید لکھنے سے معذور ہوں، بس ڈاکٹر صاحب یہی کہتے رہے کہ بعض روحیں طاقتور ہوتی ہیں‘‘،
فرزند اقبالؒ ہم سے رخصت ہوئے، اہل علم و فکر کی گھٹتی گھٹتی تعداد، رسماً نہیں حقیقتاً نہ ہونے کے برابر رہ گئی، سب ایک جیسے نہیں ہوتے مگر زندگی کے مختلف رنگوں کی بڑی علامتوں کا اس شکل میں اوجھل ہوتے چلے جانا جس سے متبادلوں کا وجود سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہو جائے، کسی انسانی سوسائٹی کے ذہنی حیاتیاتی بانجھ پن کی تصدیق ہے؟
ہمارے ڈاکٹر جاوید اقبالؒ ہمارے شاعر مشرق کی یاد، ہمارے علامہ اقبال کا افتخار، انہوں نے 1924ء میں اس عالم آب و گل کو رونق بخشی، پھر 91برس کی عمر میں، 3؍ اکتوبر 2015ء کو خودی کے آشیاں کا یہ چہکتا مہکتا پرندہ خاموش ہو گیا، سب کو فنا ہے، باقی رہ جائے گی تیرے رب کی ذات جو بزرگ و برتر ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
تازہ ترین