• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیتا بھارتی لڑکی کا اصل نام نہیں بلکہ یہ نام اُسے 15 سال قبل ایدھی فائونڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی نے دیا تھا۔ قوت گویائی اور سماعت سے محروم گیتا جب 6 برس کی تھی تو بھارتی سرحد کے قریب واقع مندر میں اپنے والدین کے ہمراہ پوجا کرنے آئی اور اُن سے بچھڑ کر ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچ گئی جہاں مقامی پولیس نے پکڑ کر اُسے ایدھی فائونڈیشن لاہور کے حوالے کردیا۔ بعد ازاں گیتا کو ایدھی فائونڈیشن کراچی لایا گیا جہاں وہ 15 سال سے مقیم ہے۔ اس عرصے میں گیتا کے خاندان کا پتہ چلانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن گیتا کے قوت گویائی و سماعت سے محروم ہونے کے سبب تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ گیتا کی کہانی نے دلچسپ موڑ اُس وقت لیا جب رواں سال جولائی میں گیتا کی زندگی سے مماثلت رکھنے والی بھارتی فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ ریلیز ہوئی اور فلم سپرہٹ ہونے کے بعد گیتا کا معاملہ میڈیا میں ابھر کر سامنے آیا جس کے بعد گیتا کو والدین سے ملانے کی کوششیں تیز کردی گئیں۔ اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ کی ہدایت پر پاکستان میں متعین بھارتی ہائی کمشنر راگھوان اور ان کی اہلیہ نے گزشتہ دنوں ایدھی سینٹر کراچی میں گیتا سے ملاقات کی جس کے بعد بھارت میں حکومتی سطح پر گیتا کے والدین کی تلاش شروع کردی گئی اور گزشتہ روز یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ’’گیتا کے والدین کا پتہ چل گیا ہے جو بھارتی شہر بہار سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ گیتا نے بھی بھارت سے بھیجی گئی تصویر میں اپنے والدین کو پہچان لیا ہے جس کی تصدیق بعد ازاں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ گیتا کا خاندان مل گیا ہے اور وہ بہت جلد بھارت واپس آجائے گی۔
مجھے بھارتی فلمیں دیکھنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہی کوئی فلم دیکھنے کیلئے میرے پاس اتنا وقت ہے مگر دل چھولینے والی کہانی پر مبنی بھارتی فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کی پاکستان میں پذیرائی کے بعد کچھ قارئین نے فلم دیکھنے اور گیتا پر کالم لکھنے کی درخواست کی جس کے بعد میں نے مذکورہ فلم دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ بھارتی فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کی کہانی ایک ایسی 6 سالہ گونگی اور بہری پاکستانی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو بھارت کے سفر کے دوران اپنے خاندان سے بچھڑ جاتی ہے اور فلم میں کٹر ہندو نوجوان کا کردار ادا کرنے والے معروف بھارتی اداکار سلمان خان بچی کو والدین سے ملانے کیلئے پاکستان لانے کا بیڑا اٹھاتے ہیں جس میں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ فلم دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی فلمساز نے اپنی فلم میں گیتا کو مسلمان پاکستانی لڑکی کے طور پر پیش کرکے دنیا سے ہمدردیاں سمیٹی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک ہندو بھارتی نوجوان کس طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر مسلمان پاکستانی لڑکی کو والدین سے ملانے کیلئے پاکستان لاتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ فلم کی کامیابی کے بعد سلمان خان جو فلم میں اپنا کردار بخوبی نبھاکر دنیا بھر سے داد و تحسین وصول کررہے ہیں، نے گزشتہ دنوں گیتا سے اسکائپ پر اشاروں کی زبان (Sign Language) میں بات کی۔ دوران گفتگو گیتا نے سلمان کو اشاروں سے بتایا کہ وہ 15 سال سے ایدھی سینٹر میں مقیم ہے اور یہاں اُسے بہت پیار ملا ہے۔ اس موقع پر سلمان خان نے گیتا سے کہا کہ ’’اگر میں تمہاری جگہ ہوتا اور مجھے بھی اتنا پیار ملتا تو میں کبھی بھی بھارت واپس آنے کی خواہش نہ کرتا بلکہ ہمیشہ کیلئے پاکستان میں رہنا پسند کرتا۔‘‘
میں سلمان خان کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ کچھ سال قبل میری اُن سے ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں کینسر کے مرض میں مبتلا میک اے وش پاکستان کے تین لاعلاج بچوں کو اُن کی آخری خواہش کے مطابق سلمان خان سے ملاقات کیلئے ممبئی لے کرگیا۔ سلمان خان نے اپنی مصروفیات کے باوجود پاکستانی بچوں کے ساتھ کافی وقت گزارا، اُنہیں تحفے تحائف دیئے اور ہمیں اپنے گھر مدعو کیا۔ دوران ملاقات سلمان خان نے کہا کہ اگر مستقبل میں بھی میک اے وش پاکستان کا کوئی بچہ مجھ سے ملنا چاہے تو آپ اُسے بھارت ضرور لائیں۔ اس موقع پر سلمان کے بھائی ارباز نے بتایا کہ سلمان اپنی کروڑوں روپے کی آمدنی کا 70 فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کردیتے ہیں۔ دوران ملاقات میں نے سلمان خان کو انسانیت کیلئے درد مند دل رکھنے والا پایا جو اپنے دل میں مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میرے پاس آج بھی سلمان خان کے آٹوگراف والی وہ تصویر موجود ہے جس میں انہوں نے سندھی ٹوپی اور اجرک پہن رکھی ہے جو میں نے انہیں تحفتاً پیش کی تھی۔ ملاقات کے بعد یہ تصویر سلمان خان نے اپنی ویب سائٹ پر بھی پوسٹ کی جسے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے دیکھ کر سراہا اور اُنہیں خراج تحسین پیش کیا مگر اس کے برعکس ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا کے غنڈوں نے سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر تصویر بنوانے اور ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے پر سلمان خان کو دھمکیاں دیں اور اُنہیں پاکستان چلے جانے کا کہا۔
بھارتی لڑکی گیتا کی کہانی یقینا دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جس کا اختتام پرمسُرت ہے لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں کئی پاکستانی اور بھارتی شہری غلطی سے سرحد پار کرکے ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہوگئے اور وطن واپس نہ جانے سے محروم ہوکر اپنی بقیہ زندگی جیلوں میں گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کی اپنے وطن واپسی کیلئے دونوں ممالک کی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ گیتا کی طرح یہ لوگ بھی اپنے پیاروں سے مل سکیں۔ گیتا یقینا خوش نصیب ہے کہ اُسے ایدھی سینٹر جیسا گھر ملا جہاں ایدھی فیملی نے کئی سالوں تک اُسے گھر کے فرد کی طرح رکھا جس پر عبدالستار ایدھی یقینا خراج تحسین کے مستحق اور نوبل انعام کے حقدار ہیں جو نہ صرف انتہائی مہربان شخص ہیں بلکہ انسانیت کیلئے ان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ بھارت ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے کہ پاکستان میں ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بننے پر مجبور کیا جارہا ہے مگر ایدھی سینٹر میں مقیم ہندو لڑکی گیتا بھارت کی متعصب آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جس کیلئے ایدھی سینٹر میں الگ کمرہ مختص ہے جہاں وہ اپنے دیوی دیوتائوں کی پوجا کرتی ہے اور 15سال قبل پاکستان آنے والی یہ ہندو لڑکی آج اپنے ہندو مذہب کے ساتھ بھارت واپس لوٹ رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی پاکستانی فلمساز بھارتی فلم ’’بجرنگی بھائی جان‘‘ کی طرح گیتا کی سچی کہانی پر مبنی کوئی فلم بنائے تاکہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر ہو جس کیلئے سرمایہ میں فراہم کروں گا۔
تازہ ترین