• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا یہ بیانات اورپیغامات کافی ہیں؟,,,,ملک الطاف حسین

6ستمبر کا جنگ ایڈیشن ”یوم دفاع پاکستان“ میرے سامنے ہے اس میں گیارہ ان شہیدوں کی تصویریں بھی موجود ہیں جنہیں پاک فوج کا اعلیٰ ترین اعزاز ”نشان حیدر“ ملا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی سے لے کر کرنل شیر تک بہادر جوانوں اور آفیسرز کی تصویریں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے میدان جنگ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا، شہادت اور جہاد جاری ہے تاہم محاذ بدل گیا ہے۔ دشمن اب کی بار نئی سازش اور تیاری کے ساتھ آیا ہے، حملہ مشرق کے بجائے شمال مغرب کی سرحدوں کی طرف سے ہورہا ہے… پاکستان کا دفاع جسے ناقابل تسخیر بنانے کیلئے 6ستمبر 1965ء کو ہمارے جوانوں اور آفیسرز نے یادگار اور ناقابل فراموش قربانیاں دی تھیں۔ ان قربانیوں کا تسلسل اب بھی ٹوٹا نہیں ہاں البتہ وہ اتحاد اور جذبہ نظر نہیں آتا جو 6ستمبر 1965ء کو دیکھنے میںآ یا تھا۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے کہ قربانیاں بھی جاری ہیں اور خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ کو ملک کے اندر لڑا جارہا ہے، عوام کیا کہتے ہیں اور قیادت کیا کررہی ہے، دشمن کون ہے اور بتایا کس کو جارہا ہے، حملہ آور کو دوست اور بھائیوں کو دشمن کہا جارہا ہے۔ یہ بہت سے سوالات ہیں کہ جن کے جواب کی تلاش ہے مگر کہیں سے کوئی ایسا جواب نہیں مل پارہا کہ جس سے قوم مطمئن ہوجائے… امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج پاکستان کے قبائلی علاقوں پر حملہ آور ہیں یہ حملے 6ستمبر 2008ء سے پہلے اور بعد میں بھی جاری رہے۔ اس مرتبہ 6ستمبر مختلف خبروں کے ساتھ آیا، زرداری صاحب کا اس دن صدارتی انتخاب تھا جو وہ جیت گئے۔ امریکی میزائل حملے بھی جاری تھے کہ جنہیں روکا نہ جاسکا اور یوم دفاع پاکستان بھی تھا کہ جسے پہلے کی طرح جوش اور جذبہ سے منایا نہ جاسکا۔
پوری قوم امریکی حملوں پر سخت تشویش اور شدید رد عمل میں مبتلا ہے وہ اپنی سیاسی اور عسکری قیادت سے ”6ستمبر“ کو اہم اعلان سننا چاہتی تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، ہاں البتہ میرے سامنے موجود ”جنگ ایڈیشن“ میں عسکری کمانڈ اور حکمران قیادت کے جو پیغامات شائع ہوئے ہیں ان کی تحریر بڑی بھرپور ہے جنہیں پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ واقعی ہمارا ماضی شاندار تھا اور مستقبل میں ہم کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے پوری طرح چوکس ہیں، اسی طرح 3/ اور 5ستمبر کے ”جنگ“ کی شہ سرخیاں بھی میرے سامنے ہے۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیان ہے ”امریکہ کے غلام نہیں عوام کے پابند ہیں“۔ انگوراڈہ پر اتحادی افواج کے حملے پر سینیٹ اور قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کے الفاظ ہیں ”اتحادی افواج خارجہ پالیسی بدلنے پر مجبور نہ کرے، سرحدوں اور خودمختاری کا تحفظ کرنا جانتے ہیں، غیرت مند لوگوں کے حوالے سے غلط اندازہ نہ لگایا جائے، آئندہ ایسا واقعہ ہوا تو بھرپور جواب دیا جائے گا“۔
عزیز ہم وطنو! عملاً کیا ہورہا ہے اور پیغامات و بیانات کیا کہہ رہے ہیں اس بحث میں نہ پڑئیے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی کمزوری اور پسپائی کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اپنی بزدلی کا اعتراف کیا جاتا ہے اگر میدان جنگ کو جیتنا ممکن نہ ہوتو پوری قوم کو اٹھ کھڑے ہونے کیلئے پکارا نہیں جاتا بلکہ اگر قوم اپنے طور پر اٹھ بھی جائے تو اسے تسلی دے کر بٹھا دیا جاتا ہے… ہماری قیادت 6ستمبر کے دن کو یاد کرکے آج کے ”6ستمبر“ کو یادگار نہیں بنارہی بلکہ یہ تو محض ان شہداء کو خراج تحسین پیش کررہی ہے کہ جو ہماری تاریخ کا پہلا باب لکھ گئے۔ تاریخ کے اس شاندار اور قابل فخر باب میں اضافہ فی الحال ممکن نہیں تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے اچھے دنوں کو یاد نہ کیا جائے۔ لوگ مرجاتے ہیں تاریخ زندہ رہتی ہے 6ستمبر 1965ء کو لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ کے شہداء آج ہمارے درمیان نہیں تاہم ان کی تاریخ زندہ ہے کہ کس طرح سے انہوں نے حملہ آور کو منہ توڑ جواب اور عبرتناک شکست دی۔ مادر وطن کے دفاع کا حق ادا کیا اور قوم کے اعتماد پر پورا اترے، ان کی شہادت اور قربانیاں یقیناً ہمارے لئے قابل فخر ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کے ہاں زندہ ہیں اور ہمارے دلوں میں بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ قوم ان کی جرأت اور بے مثال بہادری کا ہمیشہ اعتراف اور سلام کرتی رہے گی اور ”6ستمبر 1965ء“ جب بھی آئے گا قوم اپنے ان عظیم سپوتوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے گھروں سے نکل کر میدانوں میں آکھڑی ہوگی کیونکہ یہ دن ”دفاع پاکستان“ کیلئے اخبارات میں دیا جانے والا کوئی پیغام نہیں خون سے لکھا ہوا ایک ایسا اعلان ہے کہ جو پاکستان کے دشمنوں کے کانوں میں ہمیشہ گونجتا رہے گا ”خبردار یہ پاکستان کی سرحد ہے آگے بڑھنے والوں کو آگ اور خون کے دریا سے گزرنا ہوگا“۔ یہ دن منانا ہمارا حق ہے تاہم آج جو تاریخ لکھی جارہی ہے لگتا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کیلئے فخر تو کیا پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہوگی مگر کیا کیا جائے زندہ قوموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب ان کی اپنی قیادت غلط فیصلوں سے پوری قوم کو شرمندہ اور رسوا کردیتی ہے… ہمیں شرمندگی اور رسوائی کا کافی عرصے سے سامنا ہے لہٰذا اس حالت پر کوئی زیادہ غصہ نہیں البتہ ہم اپنے ملک کو ہرحال میں مضبوط اور محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں، اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے اور حملہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہتے ہیں… مگر ہماری قیادت اور ہماری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ فی الحال پیغامات اور بیانات ہی کے ذریعے یہ فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ فریضہ ہے کہ جس کیلئے خون دینا تھا اس کیلئے ہم پیغام اور بیان دے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ”حملہ آوروں“ کو منہ توڑ جواب دینا ممکن نظر نہیں آتا… لہٰذا ہم وطنوں کو چاہئے کہ وہ 6ستمبر کے جنگ ایڈیشن میں شائع ہونے والے پیغامات اور سینیٹ اور قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد میں کہے گئے الفاظ اور وزیر اعظم صاحب کے بیان کو ہی کافی سمجھیں۔ ان سے زیادہ سخت بات کرنا یا کوئی ایکشن لینا موجودہ قیادت کے بس کی بات نہیں۔ ہماری حکمران قیادت پاکستان کو محفوظ اورقوم کو غیرمحفوظ رکھنے کے ایک ایسے نئے فارمولے کو ایجاد کررہی ہے کہ جو اس سے پہلے کسی بھی آزاد اور خودمختار قوم کو سمجھ میں نہیں آیا اور نہ ہی اس طرح کی کسی پالیسی کے ذریعے کسی ملک کا دفاع اور کسی قوم کی آزادی کو برقرار رکھا جاسکا۔
عزیز ہم وطنو… خدا حافظ کہ اب تمہارے ”محافظ“ آرہے ہیں جن کے ہاتھوں میں تمہیں غلام بنانے کیلئے زنجیر، جن کی جیبوں میں تمہیں فروخت کردینے کی قیمت اور پشت پر دوست امریکہ ہے۔ اللہ رب العزت تمہاری مدد اور حفاظت فرمائے،آمین۔
تازہ ترین