• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت,,,,ملک الطاف حسین (دوسری و آخری قسط)

میریٹ اسلام آباد کے حالیہ خودکش دھماکے کے بعد ایک بار پھر ہمیں یہ پیغام مل گیا ہے کہ ہم اپنے قبائلی علاقوں میں طاقت کا استعمال روک دیں، امریکہ اپنی جنگ خود لڑے اور اس جنگ کو پاکستان کے بارڈر سے دور رکھے۔ پاکستان کو اس متنازع اور غیر واضح جنگ سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجانا چاہئے۔ امریکہ کا حلیف رہنے اور دہشت گردی کی جنگ میں مزید شریک رہنے سے صاف انکار کردیا جائے۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے اندر جاری تمام آپریشن روک کر امن معاہدے کئے جائیں۔ سفارت خانے کے علاوہ پاکستان میں امریکہ کا جو عملہ غیر اعلانیہ طور پر موجود ہے اسے ملک سے چلے جانے کے لئے کہہ دیا جائے۔
عالمی صورتحال، گرد و پیش کے حالات، امریکہ کے عزائم اور اس کی راہ میں موجود مشکلات کا اگر ذاتی مفادات اور کسی داخلی خوف سے آزاد ہوتے ہوئے ہم کھلے ذہن کے ساتھ تجزیہ کریں تو امریکہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ پاکستان خطہ کا اہم ملک ہے جو چین جیسے آزمودہ کار دوست اور اسلامی دنیا کے درمیان ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا ہے۔ پاکستان تنہا نہیں بلکہ چین، افغانستان، ایران، عرب ممالک اور عالم اسلام کے درمیان موجود ہے۔ 17 کروڑ عوام، ملٹری پاور، ایٹمی طاقت اور وسائل سے مالا مال یہ ملک جو ” اسلام “ جیسے عظیم اور پاکیزہ نظریئے کا مالک ہے اسے کچل ڈالنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیںِ اس کا اسلامی اور جہادی کلچر اس کی حفاظت کا ضامن ہے… حقیقت یہ ہے کہ جس روز حکومت پاکستان نے امریکہ کا حلیف رہنے سے انکار، دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سولجر بننے سے دستبردار اور افغانستان سے امریکہ سمیت تمام غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کردیا اس روز سے نہ صرف پاکستان محفوظ ہو جائے گا بلکہ پورے خطہ کو استحکام نصیب ہو گا۔ امریکہ سے علیحدہ ہونے کے نتیجے میں جو مشکلات اور مصائب بتائے جا رہے ہیں یہ سب ڈس انفارمیشن ہے۔ ہم نے امریکہ کی طاقت کا اندازہ لگا لیا ہے اب اپنی طاقت کی طرف توجہ ہونا چاہئے۔ امریکہ کی جنگ بہت لڑی اب اپنی جنگ بھی لڑنی چاہئے۔ امریکی مفادات کیلئے بہت کام کیا، اب ذرا اپنے مفاد کی بھی فکر کرنی چاہئے۔ دنیا میں ہم تنہا نہیں امریکہ بدنام اور تنہا ہوتا جا رہا ہے ۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں کہ جہاں امریکیوں کو خطرہ نہ ہو اور کوئی بھی دارالحکومت ایسا نہیں کہ جہاں امریکیوں پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہو۔ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے والا خود اپنے لئے پتھر جمع کر رہا ہے۔ امریکہ وسائل سے نہیں لوٹ کے مال سے مالا مال ہے۔ دوسروں پر حملے کرنے اور جنگ کرنے سے کوئی ملک ترقی نہیں کرتا۔ امریکہ کا جنگی جنون اس کے زوال کا سبب ہوگا تاہم یاد رہے کہ دفاع سے غافل رہنے سے بھی کوئی ملک محفوظ نہیں رہتا۔ ہمیں اپنے ناقابل تسخیر دفاع اور غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی کو بنیاد بنا کر عالمی برادری میں ایک نئے تعارف کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں سعودی عرب، چین، اسلامی ممالک اور ان تمام مشرقی و مغربی ممالک کو اہمیت دی جانی چاہئے کہ جن کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں اور مزید یہ کہ ان کے ساتھ تعلقات دوطرفہ اور برابری کی بنیاد پر ہوں گے۔
یوں بھی ہمیں جب ہاتھی پر سوار نہیں ہونا تو اس کی دم کے ساتھ لٹکنے کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی و حفاظت کیلئے جس قدر طاقت اور وسائل کی ضرورت ہے اس میں اللہ پاک کے فضل و کرم سے پاکستان تقریباً خودکفیل ہے تاہم زیادہ ضرورت اور کمی کو قابل اعتماد دوست ممالک کے وسیع حلقہ سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکہ پر انحصار کرنا پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ لہٰذا پاکستان کو لاحق تمام خطرات کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات کے مطابق رکھنے کے بجائے اپنے مفادات کے ترجمان اور محافظ بن جائیں۔ جنوبی ایشیا سمیت عالمی امن کو خاطر کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اور افغانستان سے تمام غیرملکی فوجوں کے فوری انخلاء کا مطالبہ کریں اس طرح کی پالیسی سے نہ صرف عالمی امن کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کے احترام اور وقار میں بھی اضافہ ہوگا… امید ہے کہ منتخب حکومت جنرل مشرف کے دور سے جاری ناکام اور بدنام خارجہ پالیسی کے تسلسل کو ختم کرنے کیلئے فوری توجہ دے گی کیونکہ پاکستان اس ناکام خارجہ پالیسی کے نقصانات کو مزید برداشت نہیں کرسکتا۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
تازہ ترین