10اکتوبر 2005ءکو ملک کے نامور اینکر حامد میر کے ساتھ میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں بہت ہی زیادہ تباہی ہوئی ہے اور امدادی اشیاءکی وہاں بہت ہی زیادہ ضرورت ہے، اس بات کے بعد میں نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی کے ساتھ رابطہ کیا ،ترابی صاحب باغ کے رہنے والے ہیں، انہوں نے نہ صرف حامد میر کی بات کی تصدیق کی بلکہ امداد کا بھی کہا۔8 اکتوبر کی صبح ایف ٹن میں رہائشی پلازہ کے گرنے کے بعد میں، میری اہلیہ اور بڑے بیٹے نے مارگلہ ٹاورز سے زندہ اور فوت ہونے والے افراد کو خود اپنے ہاتھوں سے نکالا تھا، ہم زلزلہ کے دس منٹ بعد وہاں پہنچ گئے تھے۔ چیخ و پکار اور آہ و بکاءاور تباہی کے علاوہ کچھ نہ تھا، شام تک وہاں جو کچھ ہم اپنی حیثیت میں کر سکتے تھے کرتے رہے۔ شام تک فوٹو سیشن کرنے والے بھی بے شمار آئے۔ شام کو گھر آ کر میں نے سابق ا سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ کو فون کر کے درخواست کی کہ مجھے کم از کم ایک ٹرک چاول آج ہی بھجوا دیں۔ انہوں نے پوچھا کیا کروگےتو میں نے ان سے کہا کہ میری معلومات کے مطابق تباہی بہت زیادہ ہے۔ بہر حال صبح سویرے ایک ٹرک چاول کا بندوبست ایک آڑھتی کے ذریعے ہو چکا تھا۔ ہم نے ضروری استعمال کی مزید چیزیں جن میں چینی، چائے، بسکٹ ، موم بتی، ماچس، دال کا بندوبست کر کے کئی درجن کارکنوں کے ساتھ مل کر ان کو پیکٹوں میں بند کیا اور اس بات کا اہتمام میری اہلیہ جو ان دنوں قومی اسمبلی کی رکن تھیں نے کہا کہ ایئرفورس کے ذریعے ان علاقوں میں سامان پہنچا دیا جائے۔ حامد میر پہلے جرنلسٹ تھے جو دور دراز کے علاقوں سے رابطے کا ذریعہ بنے تھے۔ ذمہ دار میڈیا کے رفاعی و فلاحی کاموں میں پل کا کردار ادا کرنے کا بھی اہتمام کیا کرتا ہے۔ غرض ایئرفورس کے ذریعے سامان کی ترسیل کا کام ہمارے ایک عزیز ایئر وائس مارشل عبدالسمیع طور نے کروا دیا تھا۔ ہمارے گھر کے دروازے پر ان دنوں نہ جانے کون کون سے خدا جانے ٹرک سامان چھوڑ جایا کرتے تھے۔ آج کے وفاقی وزیر سردار یوسف کے علاقے میں ہم نے مخیر حضرات کے تعاون سے ایک ہسپتال بھی عارضی طور پر قائم کیا۔ تباہی اتنی بڑی تھی کہ آج تک اس کے نقصانات پورے نہ ہو سکے۔ غرض امداد کا کام اپنی جگہ مگر آسیہ عظیم نے قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جو پورے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ قدرتی آفات کے نقصانات کو کم از کم اور حفاظتی اقدامات کی آگاہی کےلئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں آفات کا مقابلہ کرنے کی تربیت بالکل اسی طرح دی جائے جس طرح ماضی میں نیشنل کیڈٹ کور کے لئے دی جاتی تھی اور تربیت مکمل کرنے والے طلباءو طالبات کو 20نمبر دیئے جائیں تاکہ دلچسپی قائم رہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے مگر صرف بیانات اور کچھ مخصوص کاموں کےلئے، کوئی بھی حکومت پارلیمنٹ سے منظور شدہ قرار دادوں پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہوتی، مگر پھر بھی اس کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ جس قرار داد کاذکر کر رہا ہوں اس کو پیش کرنے سے بھی روکنے کی کوشش کسی اور نے نہیں بلکہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی مرحوم نے خود کی۔ مرحوم کا اصرار تھا کہ یہ قرار داد وہ خود اپنی طرف سے پیش کریں گے۔ خیر اس طرح کی بہت سی کہانیاں ہر دور اور ہر پارلیمنٹ میں موجود ہوتی ہیں مگر ضرورت تو اس بات کی ہے کہ قرار داد منظور ہو تو پھر حکومت عمل بھی کرے۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں قرار داد جن صوبائی اسمبلیوں میں منظور ہوتی تھی اسکی بھی اپنی داستان ہے حالانکہ ہر سال ہم جس قدر پانی ضائع کر کے اپنے لئے جس مشکل صورت حال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں وہ بھی ایک آفت سے کم نہ ہو گا۔دنیا میں کسی بھی جگہ زلزلہ آسکتا ہے۔ جاپان، امریکا، چین، ترکی کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں اس کا خطرہ نہ ہو۔ زمین میں حرکت، پلیٹوں کا سرکنا، زیر زمین توانائی کا اخراج تو ہوتا ہی رہے گا مگر جہاں تک زلزلہ کے بعد تباہی اور نقصانات کا تعلق ہے اس میں حضرت انسان کا اپنا بھی کردار موجود ہے۔ کچے مکان، بے شمار دولت کمانے کےلئے بنائے گئے۔ مارگلہ ٹاورز کی طرح کے پلازہ اور نقشہ کے رہائشی پروجیکٹ.... جاپان میں زلزلہ معمول کی بات ہے۔ اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والوں کو نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی احساس۔ امریکا میں پوری پوری ریاستیں ایسی زمین پر موجود ہیں جہاں ہر وقت زلزلہ آنے کا امکان موجود ہے۔ ہمارے ہاں 2005ءکے بعد بعض ادارے تو قائم کر دیئے گئے مگر کیا یہ صورتحال سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کے مالک ہیں۔ اس پر کئی روز تک بحث ہوتی رہے گی مگر کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو صورتحال کو سنبھال لے۔ صوبہ کے پی کے میں بلدیاتی سطح پر کونسلرز کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ صورتحال کو سنبھالیں گے مگر بغیر تربیت اور وسائل کے یہ ممکن ہی نہیں۔ ایک زمانہ میں شہری رضاکار موجود ہوتے تھے۔ سول ڈیفنس کے نام پر قائم میہ ادارہ عام لوگوں کو تربیت دیتا تھا۔ اگر خدانخواستہ اس زلزلہ کی تباہی 2005ءکی طرح ہوتی تو کچھ بھی باقی نہ رہتا۔قوموں کو نازک صورتحال کو قابو میں لانے کےلئے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو اداروں کےلئے وسائل کی اشد ضرورت کے ساتھ ہی ساتھ مہارت، تعلیم اور تربیت کی بھی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔امریکا میں وسائل کی کوئی کمی نہیں مگر بعض اوقات صورتحال وہاں بھی قابو سے باہر ہوتی ہے۔ مگر تربیت اور تعلیم وسائل کے ساتھ مل کر بالآخر کامیاب ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی شخص اپنے گھر میں مزید تعمیر بغیر اجازت اور معائنہ کے کر ہی نہیں سکتا اور ہمارے ہاں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں.... قوانین تو ہمارے عمل بھی موجود ہوں گے مگر ان پر عملدرآمد کروانے والے نہ صرف چور راستے دکھاتے ہیں بلکہ رشوت لے کر نظر انداز بھی کر دیتے ہیں۔ذرا غور کیجئے اگر قانون کی حکمرانی اور ان پر عملدرآمد ہوتا تو فاٹا کی صورتحال کبھی خراب نہ ہوتی، اب باجوڑ میں امدادی کارروائیوں کے حوالے سے بھی غور کرنا ہو گا۔ فوج کہاں کہاں اور کیسے کیسے کام کرتی رہے گی۔ میرے علم میں نہیں کہ باجوڑ ایجنسی جو کہ فاٹاکا حصہ ہے وہاں امن و امان کی صورتحال کیا ہے۔ مگر تباہی تو پاک افغان بارڈر کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔امدادی کارروائیاں تو کرنا ضروری ہیں مگر کسی قیمت پر ....2005ءمیں ٹیلی ویژن کی اس قدر سہولیات موجود نہ تھی۔ اب الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے ایک بار پھر پل کاکردار ادا کر رہے ہیں۔ پل پل کی خبر جگہ جگہ پر ہونے والے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ایرا، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے و دیگر ادارے اب صورتحال سے نبردآزما ہونے کے طریقوں سے تو واقف ہیں مگر افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔2005میں امریکی اہلکار اور ان کو ناپسند کرنے والے دونوں مل کر بھی کام کر رہے تھے۔ ناگہانی صورتحال میں سب کو مل کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ قومی سانحات میں ہر کسی کا مثبت کردار قابل ستائش ہوا کرتا ہے۔ قابل تحسین ہیں میڈیا کے وہ نمائندے جو اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر رہے ہیں۔ اے کلاس ہماری حکومتیں ملک کے تعلیمی اداروں اور جواں سال طلبہ و طالبات کو مشکل صورتحال سے دوچار ہونے اور ریلیف کے کاموں کی تربیت کا اہتمام بھی انہی اداروں جن کو ان کاموں کےلئے بنایا گیا ہے کے ذریعے کروا دیئے ہیں۔