• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی اُمّہ یا امّتِ اسلامیہ ہمارے شاعروں، دانشوروں اور سیاستدانوں کا ہمیشہ سے محبوب موضوع رہی ہے۔ جس کے ذریعے وہ مذہبی بنیادوں پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو وحدت و اَخوّت کا درس دیتے رہے ہیں اور ان کے اتحاد کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ بعض مذہبی جماعتیں تو آج بھی پان اسلام ازم کی علمبردار ہیں اور مسلمانوں کے تمام مسائل کا علاج مسلم امہّ کے اتحاد میں مضمر سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال، مولانا جمال الدین افغانی، سیّد قطب اور مولانا مودودی اتحادِ عالمِ اسلامی کے بڑے علمبردار وں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ علامّہ اقبال کی شاعری میں تو جا بجا اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
اسی طرح دورِ حاضر میں ذوالفقار علی بھٹو وہ سیاستدان تھے جنہوں نے 1974میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے ذریعے دو بڑی عالمی طاقتوں سوویٹ یونین اور امریکہ کے مقابلے میں ایک تیسری عالمی طاقت یعنی ’’ اسلامی بلاک ‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ جسے عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان تمام اکابرین کی خواہشات کے باوجود آج تک ’’ مسلم امّہ ‘‘ کی تشکیل اور اتحاد کا یہ خواب تشنہ ء تکمیل ہی رہا ہے۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بارے میں تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ بھولے بھالے مسلم عوام کوجذباتی نعرے بازی کی نذر ہونے سے بچایا جا سکے۔ یقیناًہم سب کی یہ خواہش ہے کہ تمام مسلم دنیا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائے اور عالمی امور میں ہر مسئلے پر ایک زبان ہو لیکن کیا آج تک ایسا کبھی ہوا ہے؟ اور اگر کبھی بھی ہے تو کن حالات میں ہوا ہے اور اس کے نتائج کیا نکلے ہیں؟
تاریخ ِ انسانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا کبھی بھی مذہبی، علاقائی یا نسلی بنیادوں پر زیادہ دیر کے لیے متحد نہیں ہوئی۔ اور اگر ان بنیادوں پر کبھی اتحاد ہوا بھی ہے تو وہ اسی قسم کے اتحاد کے ردّ ِ عمل کے طور پر ہوا ہے جو بالآخر خوفناک جنگوں کا باعث بنتا رہا ہے۔ اس سے نوعِ انسانی کو کوئی مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ یہ بات صحیح ہے یا غلط اس سے قطع ء نظر انسان ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر انفرادی اور قومی سطح پر اتحاد کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔ اور یہ کڑوی سچائی ایک گھر کے افراد کو بھی زیادہ دیر تک متحد نہیں رہنے دیتی جب ان کے انفرادی مفادات پر کوئی زدپڑتی ہے۔ حالانکہ ایک گھر کے افراد میں مذہب کے علاوہ اور بھی بہت سی قدریں مشترک ہوتی ہیں جن میں ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب اور خاندانی پس منظر جیسی مشترک قدریں بھی شامل ہیں۔ پھر دنیا کے مختلف حصّوں میں واقع مختلف ممالک کو محض مذہب کی بنیاد پر وحدت و یگانگت کی لڑی میں کیسے پرویا جا سکتا ہے؟ سچی بات تویہ ہے کہ تمام مذاہب میں فرقوں کی تشکیل کے بعد تو کسی ایک ملک کو بھی زیادہ دیر تک مذہب کے نام پر متحد نہیں رکھّا جا سکتا۔ جسکی دورِ حاضر میں سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ہے۔ یہ حقیقت صرف مسلم اُمّہ ہی نہیں دیگر مذاہب یعنی عیسائیت، ہندومت اور یہودیت کے بارے میں بھی اسی طرح سچ ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں ہمیشہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے کئی ممالک موجود رہے ہیں اور کبھی ایسا ممکن نہیں ہوا کہ تمام عیسائی اور مسلمان ممالک نے اپنی اپنی سرحدیں ختم کرکے خود کو ایک دوسرے میں ضم کرلیا ہو۔ برّصغیر میں ہندوئوں کی پانچ سو سے زیادہ ریاستیں موجود رہی ہیں۔ پھر کس بنیاد پر ہم ایسے خواب دیکھتے ہیں اور انکی تعبیر میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں جو ناممکنات میں سے ہیں۔ بلکہ ہمارے قومی مفادات کے لیے مختلف حوالوں سے ضرررساں ثابت ہوتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کی جنگوں میں کود پڑتے ہیں۔ یورپ میں بے شمار عیسائی ریاستیں آپس میں دست وگریباں رہی ہیں اور اسی طرح واقعہ کربلا سے شروع ہونے والی مسلم ممالک کی آپسی جنگ آج بھی کس نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ بلکہ اپنے اپنے مفادات کی خاطر یہ ممالک دوسرے مذاہب کے حامل ممالک سے اپنے ہم مذاہب ممالک کے خلاف امداد حاصل کرتے رہے ہیں۔ سپین کے کائونٹ جولین کا مسلمانوں کو سپین پر حملہ کرنے کی دعوت دینا، یا لاہور کے مسلمانوں کی دعوت پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا لاہور کے سکھ حکمرانوں پر حملہ اور اس جیسی بیسیون مثالیں ایسی ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ محض مذہبی بنیادوں پر ملکوں کا اتحاد کے دیوانے خواب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا، صلیبی جنگوں کے موقع پر مسیحی اور مسلم دنیا کی اصطلاح وجود میں آئی لیکن تب بھی تمام مسیحی اور مسلم ممالک نے اپنا اپنا علیحدہ وجود باقی رکھّا اور بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے رہے۔ اس وقتی اتحاد نے بھی لاکھوں انسانوں کا خون بہانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ یا د رکھیے دنیا کی زیادہ جنگیں غیر مذاہب کی بجائے ہم مذاہب کے درمیان لڑی گئی تھیں۔ چاہے وہ جنگ ِ کربلا ہو، بنی امیہ اور بنو عباس کے درمیان جنگیں ہوں، خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے جنگیں ہوں یا عیسائی دنیا میں فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کی آپس میں جنگیں ہوں یا بھارت میں مہابھارت جیسی جنگ ہو جس میں متحارب فریق آپس میں چچا زاد بھائی (Cousins)تھے۔ دورِ حاضر کی دو عالمی جنگیں جنگِ عظیم ِ اوّل اور دوم میں متحارب ممالک میں اکثریت عیسائی ممالک کی تھی۔ ہم نے عراق اور ایران کے درمیان آٹھ سالہ خونریزی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ آج بھی یمن اور سعودی عرب، ایران اور عراق ہر دم آپس میں دست و گریباںہیں۔ پاکستان کے مسلم ہمسایہ ممالک افغانستان، بنگلہ دیش اور ایران پاکستان سے ناراض ہیں بلکہ تمام مسلم ممالک کے انڈیا کے ساتھ زیادہ گہرے تعلقات ہیں۔ لہٰذا مسلم اُمّہ کے اتحاد کی باتیں سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے تو ٹھیک ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر مذہبی بنیادوں پر بین الاقوامی اتحاد مثبت نتائج کا حامل ہوتا۔ تو اسلامی سربراہ کانفرنس کی طرح عیسائی سربراہ کانفرنس کا وجود بھی ہوتا۔ وہی اتحاد دیرپا ہوتا ہے جو ٹھوس مادی وجوہات اور قومی مفادات کے تحت تشکیل پاتا ہے۔ باقی باتیں محض خود فریبی اور عوام کی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوششیں ہیں۔


.
تازہ ترین