آغاز اس اعتراف کے ساتھ کہ آج کا کالم فرمائشی، بورنگ، فضول اور بالکل بیکار ہے۔ سچ پوچھیں تو سب سے کثیر الاشاعت اخبار کی قیمتی سپیس ضائع کرنے پر احساس جرم کا شکار بھی ہوں لیکن کیا کروں، مجبوری ہے۔’’فدوی‘‘ بضد ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام اس کی یہ اپیل ’’چوراہا‘‘ میں ہی آویزاں کی جائے حالانکہ میں نے اسے سمجھایا بھی کہ’’بھائی!بہتر ہوگا تم فلاں فلاں سے رابطہ کرو، ان کے کالم اکسیر اور تاثیر والے ہوتے ہیں‘‘ لیکن ’’فدوی‘‘ بات ہی سننے کو تیار نہیں، پھر میں نے بھی سوچا کہ گزشتہ 22سال میں جو کالم فرمائشی، بورنگ، فضول اور بیکار نہیں تھے ان سب نے مل کر کون سی توپ چلالی ہے جو اس ایک کالم کے بارے اتنا سنجیدہ ہورہا ہوں سو ’’حصول ثواب‘‘ اور’’نیکی کمانے‘‘ کے لئے اک عام پاکستانی کی یہ اپیل پیش کررہا ہوں جو اصلاً میٹرو وغیرہ میں مصروف وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام لکھ کر میرے حوالے کی گئی ہے، میرا رول صرف ڈاکیئے کا ساہے۔
’’بخدمت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب
جناب عالی!
مودبانہ گزارش ہے کہ سائل عرصہ23سال سے ایک سرکاری ہسپتال لاہور میں بطور وارڈ بوائے ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے۔ سائل2006ءسے جگر کے عارضہ میں مبتلا ہے اور اپنی استطاعت کے مطابق علاج کر اتا رہا ہے مگر اب بیماری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ڈاکٹروں نے لیور ٹرانسپلانٹ کروانے کے لئے کہا ہے۔ اس مہنگے آپریشن کے لئے میرے پاس وسائل نہیں ہیں۔ سائل اس وقت بھی کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جنہیں پالنے سنبھالنے والا بھی کوئی نہیں کیونکہ بدقسمتی سے میری بیوی بھی دو سال قبل کینسر کی بیماری کا شکار ہو کر وفات پاچکی ہے۔
جناب عالی!شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹروں نے لیور ٹرانسپلانٹ کا خرچ35تا40لاکھ روپے بتایا ہے جبکہ میں اتنی بڑی رقم کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیونکہ میں تو بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے پوری کرتا ہوں۔ میری آپ سے التجا ہے کہ لیور ٹرانسپلانٹ و دیگر اخراجات سرکاری طور پر ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا جائے ورنہ میرے کم سن بچوں کا پرسان حال بھی کوئی نہ ہوگا۔ لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولت شیخ زید ہسپتال میں موجود ہے جہاں میں بطور وارڈ بوائے ملازم ہوں۔
العرضے
عظمت علی ولد بشیر احمد
رہائش ملتان روڈ کھاڑک نالہ سٹاپ، فاروق اعظم سٹریٹ
مدینہ کالونی نزد مسجد ختم نبوت لاہور
فون 0321-4704549
اکائونٹ نمبر12440003349101حبیب بینک علامہ اقبال میڈیکل کالج برانچ(لاہور)‘‘
ہمارے معاشرہ میں ’’بھلائی برائے بھلائی‘‘ کا رواج نہیں ہے لیکن’’حصول ثواب‘‘ اور ’’نیکی کمانے‘‘ پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر اس عام پاکستانی پر شفقت فرماتے ہیں تو یہ بڑی نیکی ہوگی، بہت ثواب ملے گا۔ اس نیکی کا جو ایک آدھ فیصد اجر مجھے ملے گا، میں رضاکارانہ طور پر’’بلیک اینڈ وائٹ‘‘ میں وہ بھی خوشدلی سے وزیر اعلیٰ کے نام کرتا ہوں کیونکہ مجھے عظمت علی ولد بشیر احمد سے کہیں زیادہ فکر اس کے ان کم سن بچوں کی ہے جو ماں سے پہلے ہی محروم ہوچکے ہیں۔ میں مسلسل صرف یہی سوچے جارہا ہوں کہ خدانخواستہ اگر عظمت علی کو کچھ ہوجاتا ہے تو اس بے رحم معاشرہ میں ان بچوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ کھاڑک نالہ سٹاپ والی وہ رہائش جو مدینہ کالونی اور فاروق اعظم سٹریٹ نزد مسجد ختم نبوت ہے.....فوری طور پر چھن جائے گی اور یہ یتیم، مسکین، لاوارث بچے سڑک پر آجائیں گے اور بے آسرا بچوں کے لئے سڑکیں سانپوں سے زیادہ زہریلی ہوتی ہیں۔ یہ بچے پیٹ کیسے بھریں گے؟ زندہ رہنے کے لئے کون سے پیشے اختیار کریں گے یا کرنے پر مجبور ہوں گے؟یہاں مجھے اعتزاز احسن کی وہ نظم کسی نوحہ کی طرح یاد ا ٓرہی ہے جس میں اس نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا تھا
’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘
عدلیہ بحال ہوگی
جج صاحب ٹھوک کر مدت ملازمت پوری کرکے مراعات سمیت رخصت ہوگئے
ریاست ویسی کی ویسی ہی پڑی ہے
سوتیلی ماں کے جیسی‘‘
ماں باپ سرپر نہ رہیں، بچے بالکل چھوٹے ہوں، ریاست سوتیلی ماں جیسی ہو تو ایسی صورتحال میں بچوں کے انجام کی پیش گوئی مشکل کام نہیں۔ اسی لئے میں بڑی بڑی باتوں اور ہائی پروفائل قسم کے منصوبوں سے چڑتا ہوں کہ جہاں خلق خدا کروڑوں کی تعداد میں بنیادی ترین ضروریات زندگی کے لئے ترس رہی ہوں وہاں زلزلوں اور ذلتوں کے سوا کس شے کی امید رکھیں۔ یہاں تو جن بچوں کے سروں پر ماں باپ کا سایہ قائم ہو، ان کا بھی جو حال ہے ، سامنے ہے تو جہاں یہ سراب بھی چھن جائے؟
عظمت علی کے پتے میں’’فاروق اعظم سٹریٹ ‘‘ تو ہے لیکن صدیاں بیت گئیں، ہمیں کوئی فاروق اعظم نصیب نہ ہوا جو ز لزلے سے لرزتی ہوئی زمین کو چابک رسید کرتے ہوئے کہتا.....’’ذرا رک جا، کیا تیری چھاتی پر عمر انصاف نہیں کررہا؟‘‘
اب میں عظمت علی اور خادم اعلیٰ پنجاب کے درمیان سے رخصت ہوتا ہوں اور ایک بار پھر اپنے حصہ کی نیکی اور ثواب کو سرنڈر کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ جان بچ جائے، یہی بہت ہے.......اک ایسی جان جسے ہم محاورتاً’’قیمتی جان‘‘ کہتے ہیں حالانکہ ایسی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔