• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان میں ز لزلے کے بعد امداد کی پیشکش کی اور سرکار پاکستان نے فوری ردعمل کے طور پر شکریہ ادا کیا اور باور کرایا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ انہی ایام میں ایدھی فائونڈیشن کے لوگ بھارت میں موجود تھے جو ایک بھارتی لڑکی کو واپس اس کے خاندان کے حوالے کرنے گئے ہوئے تھے۔ وہ بچی بہت عرصے سے پاکستان میں تھی۔ وہ بولنے اور سننے سے معذور ہے۔ ایدھی کا ادارہ لاوارث بچوں کو پناہ دینے والا ملک کا ایک بہت بڑا ادارہ ہے۔ اس کی خدمات کا دائرہ تمام دنیا میں ہے۔ ایدھی کے لوگوں نے ابتداء میں کافی کوشش کی مگر بھار ت کی حکومت نے اس بچی کے سلسلے میں کوئی خاص مدد نہ کی۔ پھر جب میڈیا پر تذکرہ شروع ہوا تو بھارتی اداروں نے توجہ کی اور بھارتی سفارتی ذرائع نے رابطہ شروع کیا اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ وہ بچی بھارتی ہے تو بھارتی ہائی کمیشن نے ایدھی صاحب سے رابطہ کیا اور بچی کو واپس بھارت لے جانے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاملہ پر حکومت پاکستان کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ بھارت میں ایدھی والوں کا بچی کی وجہ سے خوب سواگت ہوا۔پھر بھارتی وزیر اعظم نے ایدھی ٹرسٹ کو ایک کروڑ بھارتی روپے دینے کا عندیہ دیا۔ بھارتی اشرافیہ اور سیاسی لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی پیشکش سے پاکستان پر احسان اور ایدھی ٹرسٹ کی امداد سے دنیا بھر میں بھارتی چہرہ باوقار ہوگا۔ حکومت پاکستان اس معاملہ سے لاتعلق سی رہی۔ وزیراعظم امریکی دورہ پر تھے، ہم اس دورے کو کامیاب تو نہیں کہہ سکتے مگر ایک اچھا دورہ ضرورتھا۔ ویسے بھی مسلم لیگ نواز حکومت ہو یا زرداری صاحب یا ماضی کی سرکار وہ فلاح و بہبود کے معاملات سے دور ہی رہتے ہیں۔ وہ انفرادی خدمت اور خدمات کے قائل ہیں۔وہ سب عوام کو دینا نہیں صرف لینا جانتے ہیں۔
ایک کروڑ بھارتی روپے کی امداد کو ایدھی ٹرسٹ نے جس وقار سے ٹھکرایا وہ قابل تعریف ہی نہیں حکومت پاکستان کے وقار کا باعث بھی ہے۔ ایدھی ٹرسٹ نے بھارتی حکومت اور وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور ان سے درخواست کی کہ یہ امدادی رقم وہ بھارت میں معذور لوگوں کی امداد کرنے والے اداروں کو دیں تاکہ بھارت کی لاچار اور مجبور جنتا کی مدد ہوسکے۔بھارتی حکومت کا چہرہ وہاں کی قابض سیاسی جماعت کی سرگرمیوں کی وجہ سے بے وقار ہورہا ہے۔ بھارتی جمہوریت کو دنیا کی بڑی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے مگر حالیہ ایام میں اور خصوصی طور پر وزیراعظم مودی کے آنے کے بعد جس طریقے سے اقلیتوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے بھارتی اشرافیہ کی مذہبی جنونیت انتہا پر ہے۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ ان باتوں کا نوٹس نہیں لے رہا اور جمہوریت کے دعویدار ممالک جن کے سرخیل برطانیہ اور امریکہ ہیں وہ بھارتی سرکار کے رویہ پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ اب دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں نظریات عالمی معیشت کے تناظر میں بدلتے جارہے ہیں، ایسے میں بھارتی وزیر اعظم کے دورے بھی معیشت کی ترقی کے تناظر میں اور چین کے ساتھ مقابلہ کے لئے بہت کامیاب سمجھے جارہے ہیں، مگر بھارت کے اندر سوشل میڈیا اب خاصا سرگرم عمل ہورہا ہے۔ اس پر بھارتی اشرافیہ اور سیاستدانوں کا کنٹرول نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھارتی ادیب سب سے زیادہ فعال نظر آرہے ہیں اور وہ اپنا کردار بہت خوبی سے ادا کررہے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم کو احساس دلا رہے ہیں کہ ان کے قول و فعل کے تضاد نے بھارتی جمہوریت کا چہرہ داغدار کردیا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی ا شرافیہ کی وجہ سے ایدھی جیسے لوگ بھی انتخابات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ اس وقت ملک بھر میں زلزلے کی وجہ سے عوام میں بے چینی ہے مگر سرکار اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ سینٹ کے چیئرمین کو جمہوریت کا مستقبل تو خطرہ میں نظر آتا ہے مگر وہ بدانتظامی اور کرپشن کے بارے میں زبان بند ہی رکھتے ہیں ان کو فکر ہے تو یہ کہ سینیٹر حضرات کے کیفے ٹیریا کا معیار کیا ہے۔ ان کو عوام کے معیار زندگی کا خیال نہیں۔ ان کو قومی اداروں کے کردار کی بہت فکرسی رہتی ہے مگر ان کے سینیٹر حضرات کی جو سرگرمیاں ہیں اور سینٹ کے زیر انتظام جو کمیٹیاں کام کررہی ہیں ان پر نظر نہیں اور ایسا ہی کچھ معاملہ قومی اسمبلی کا ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ جمہوریت کے غم میں پریشان رہتے ہیں مگر دوسری طرف وہ اسمبلی سے کوئی ایسا قانون نہیں بنواسکے جس سے کرپٹ لوگوں پر گرفت ہوسکے ۔ ملکی ادارے حسب روایت اتنی سست روی سے کام کرتے ہیں کہ کچھ کرنے سے کچھ نہ کرنا بہتر لگتا ہے۔ نیب کے کردار کے بارے میں ان کے سدا بہارلیڈر آصف زرداری نے جو بیان دیا ہے اس پر نواز حکومت کا کوئی ردعمل نہیں آیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زرداری صاحب کے ساتھ میاں نواز شریف کی مروت اور دوستی جمہوریت کے کارن ہے اور ایسی جمہوریت جس کو دیکھنے سے عوام کا ایمان خطرہ میں رہتا ہے۔
ایدھی جیسے لوگ اس جمہوریت سے تنگ آکر گرم موسموں میں لو کی دعا کرتے نظر آتے ہیں۔ آج تک کسی سیاستدان نے اشرافیہ یا اعلیٰ نوکر شاہی نے شاید ہی ایدھی جیسے لوگوں کو عزت اور وقار دیا ہو، ملک میں اور لوگ بھی خدمت خلق کررہے ہیں مگر ان کا قول و کردار کتنا مشکوک ہے اس پر کسی کی نظر نہیں۔ اس بار کے زلزلے کے بعدحکومت کو موقع ملا تو ہے کہ وہ روایتی روش بدل کر عوام کے لئے کچھ کرنے کا سوچیں مگر ان کو سب سے زیادہ مخالفت اپنے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار سے ملے گی۔ وہ عوامی مفاد کو آئی ایم ایف(IMF)کے مفادات سے کم تر خیال کرتے ہیں۔ ویسے بھی ان پر قرض لینے کا جنون رہتا ہے۔ وہ آج کے دور میں بھی قرض کی معیشت کو بہتر خیال کرتے ہیں، ان کے اپنے اثاثے تو ملک سے باہر ہیں مگر ملک کے اثاثوں میں قرض کا اضافہ ان کی نئی روایت ہے جو کہ ملک کے لئے خطرناک ہے۔ایدھی نے بھارتی مودی سرکار کو ایسا مشورہ دیا ہے جو بھارتی عوام کے مفاد میں ہے۔ بھارتی عوام کے اندر بھی بھارتی سرکار اور سیاستدانوں کے خلاف غصہ نظر آرہا ہے۔ ان کے ادیب اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ عوام کی جانب سے محبت اور الفت کا اظہار بھارتی جمہوریت کے کردار کے منافی تو ضرور ہے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ جمہوریت لوگوں کو محروم عقل تو کردیتی ہے مگر عوام کے خواب نہیں ختم کرسکتی، سو ترقی اور آزادی خیال کے خواب دیکھنے بہت ضروری ہیں، اگر آپ کی آنکھوں میں ایسے خیال اور خواب ہوں گے تو سب ایدھی کا ساتھ دیں سکیں گے اور جیسا کہ ایدھی ٹرسٹ کی جانب سے کہا گیا وہ کبھی بھی امداد کے لئے حکومتوں سے رجوع نہیں کرتے اور نہ ہی حکومتوں کی امداد قبول کرتے ہیں۔ پاکستان تو امداد کی وجہ سے بدانتظامی کا مریض بنا ہوا ہے اگر امدادی پروگرام ختم کرکے اپنی چادر ا ور چار دیواری کے اندر اپنے و سائل سے گزارہ کا سوچا جائے تو کیا ممکن نہیں ہے مگر جمہوریت کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے وسائل میں گزارہ نہیں کرسکتے۔ ا پنے و سائل میں گزارےکے لئے جمہوریت ضروری نہیں، صرف قانون پر عمل اور اصول کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
حالیہ زلزلے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگر ملکی نظام میں جو زلزلہ آیا ہوا ہے ا س پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ اس وقت پورے ملک میں تقریباً بنیادی سطح پر مقامی انتخابات ہورہے ہیں ۔ ان انتخابات پر جس طریقے سے رقوم خرچ کی جارہی ہیں وہ الیکشن کمیشن کے لئے لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ قانون کی خلاف ورزی ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے ، پھر ان انتخابات کا فائدہ کیا ہے۔ ان لوگوں کے اختیارات پر نوکر شاہی اور اسمبلیوں میں بیٹھی اشرافیہ قابض ہے۔ ایسے میں تبدیلی اور انقلاب کی توقع اور امید بالکل فضول ہے، پھر ملک بھر میں احتساب کا جو شور ہے وہ صرف سندھ کے اندر ہی نظر آرہا ہے اور اس کو اب دوسرے صوبوں کا رخ کرنا چاہئے تاکہ عوام کو یقین آسکے کہ احتساب کرنے والے اپنے کام میں سنجیدہ ہیں۔ احتساب کا دائرہ کار صرف الزام لگانے تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ سزا دینے کا سلسلہ ہی احتساب کی حقیقت واضح کرسکتا ہے۔ احتساب کا دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ ملک ایدھی کو دے دیا جائے تاکہ عوام کے حقوق کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک محفوظ بھی نظر آئے۔ ایدھی ٹرسٹ سے کم از کم پاکستان کی پہچان تو ہورہی ہے۔
تازہ ترین