• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے زین قتل کیس میں نامزد سابق وزیر مملکت صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو سمیت پانچ ملزمان کو مدعی اور گواہان کے منحرف ہونے کی وجہ سے بری کیا تو اس فیصلے نے ایک بار پھر پاکستان میں تفتیش،پراسیکیوشن اور عدالتی نظام کے بارے میں کئی سوالات کھڑے کر دئیے۔ عدالتی فیصلے نے اس دلیل پر بھی ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ قانون اندھا ہوتا ہے اورعدالتیں ٹھوس شہادتوں اور ثبوتوں کی روشنی میں ہی راستہ تلاش کرتی ہیں۔ قتل کا یہ واقعہ رواں سال یکم اپریل کو لاہور کے علاقے کیولری گرائونڈ میں پیش آیا تھا جب رات کی تاریکی میں مصطفی کانجو کی قیمتی کار ایک دوسری گاڑی سے ٹکرا گئی ،اس کار کو ایک لڑکی چلا رہی تھی جبکہ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق مصطفیٰ کانجو بھی ایک لڑکی کے ہمراہ اور مبینہ طور پر نشے میں دھت تھا۔ جس نے گاڑی سے باہر نکل کر پہلے گالم گلوچ کی اور پھر قریب واقع اپنے گھر جا کر کلاشنکوف اور گارڈز کو ساتھ لیا۔واپس جائے وقوعہ پہنچ کراندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ،اس دوران دوسری گاڑی والی لڑکی تو وہاں سے غائب ہو چکی تھی لیکن فائرنگ کی زد میں آ کر سولہ سالہ لڑکا زین جاں بحق اور حسنین زخمی ہو گیا۔ موقع سے فرار ہونیوالے مصطفی کانجو کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ اسکے گارڈز پہلے ہی حراست میں لئے جا چکے تھے۔ پولیس کی طرف سے عدالت میں جو چالان داخل کیا گیا اس میں تحریر کیا گیا کہ دوران تفتیش ملزم مصطفی کانجو قصوروار پایا گیا۔ زین یتیم اور بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اس لئے اس مقدمے کا مدعی اس کا ماموں سہیل افضل بنا۔ دوران تفتیش ملزم مصطفی کانجو نے اعتراف جرم بھی کیا لیکن پھر وہی ہوا جو ریمنڈ ڈیوس اور شاہ زیب کے مقدمات میں ہوا تھا۔ طاقت،اثر و رسوخ اور پیسہ جیت گیا،انصاف ہار گیا۔ ایک دو یا تین نہیں بلکہ مدعی سمیت چودہ گواہان اپنے دئیے گئے بیانات سے منحرف ہو گئے۔یہاں کچھ حقائق سے قارئین کو آگاہ کرتا ہوں کہ قتل کے واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پولیس کو ہدایات دی تھیں کہ نہ صرف ملزمان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے بلکہ زین کی والدہ اور تمام گواہان کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ان ہدایات پر نہ صرف زین کے لواحقین اور گواہان کو تحفظ فراہم کیا جا رہا تھا بلکہ مقدمے کے اخراجات بھی پنجاب حکومت کی طرف سے ادا کئے گئے۔ اس کے باجود مدعی سہیل افضل نے مقتول زین کی والدہ یعنی اپنی بہن کے ساتھ مل کر دو کروڑ روپے اور ایک فلیٹ کے عوض معصوم بچے کے خون کا سودا کر لیا کیوں کہ مدعی سہیل افضل کے مطابق وہ غریب لوگ مزید دبائو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ عدالت میں بطور خون بہا دیت کی مد میں پیسے لینے کیلئے کوئی تحریری معاہدہ جمع نہیں کرایا گیا بلکہ اپنے بیانات تبدیل کر لئے گئے۔ پیسے کی اسی چمک نے دیگر گواہان کی آنکھیں بھی خیرہ کر دیں اور انہوں نے مصطفیٰ کانجو کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ پراسیکیوشن بھی کلاشنکوف کو بندوق میں تبدیل کرنے سمیت دیگر تضادات کے باعث ملزم کو مجرم ٹھہرانے میں ناکام رہا اور یوں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے باجود بطور فریق ریاست منہ دیکھتی رہ گئی اور ملزمان وکٹری کا نشان بناتے دولت کے بل بوتے پرباعزت رہا ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تبارک تعالی نے قرآن حکیم میں قصاص اور دیت کے بارے میں احکامات دیتے ہوئے دیت کو جائز قرار دیا ہے۔ قتل عمد کی صورت میں جان کے بدلے جان کا حکم صادر کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ارشاد کیا گیا ہے کہ اگر ورثاء میں سے کوئی ایک بھی جان کے بدلے رقم لینے پر راضی ہو جائے تو دیت شرعی لحاظ سے جائز ہو جاتی ہے۔ مفتیان اسلام کے نزدیک اگر دولت مند یا بااثر افراد کسی کو جبری طور پر دیت کیلئے راضی کر لیں تو ان کا یہ فعل تو نا مناسب ہو گا لیکن اس ضمن میں کی جانے والی دیت شرعی حیثیت میں جائز ہو جاتی ہے۔ اب اس طرح کے مقدمات میں اس امر کو واضح کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا لواحقین نے مقتول کا خون دیت کے عوض معاف کیا ہے یا اس میں دیگر پہلو کارفرما تھے۔قارئین کی یادداشت بحال کرنے کیلئے ذکر کردوں کہ شاہ زیب قتل کیس میں کراچی کی انسداد دہشت گردی نے جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو موت کی جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن بعد میں مقتول کے والدین نے مجرموں کو معاف کرنے کا بیان حلفی عدالت عالیہ میں جمع کرا دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دئیے تھے کہ زمین پر فساد ختم کرنے کیلئے شریعت کے سنہری اصول وضع کئے گئے تھے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ اصول با اثر افراد استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ امیر آدمی کیلئے قتل کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا ،اب تو ایسے افراد گھوم پھر رہے ہیں جنہوں نے دس دس قتل کئے ہیں۔ بااثر افراد نے دیت کے قانون کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔اسی بنچ کے رکن اور بعد میں چیف جسٹس رہنے والے جواد ایس خواجہ نے بھی ریمارکس دئیے تھے کہ پہلے قتل کے مقدمات میں گواہ بکتے تھے اب اس معاملے میں اسلامی تعلیمات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔قصاص اور دیت کے معاملے کو پڑھے بغیر معافی نہیں دی جا سکتی کیوں کہ قصاص اور دیت اسلامی تعلیمات ہیں لیکن ان مقدمات میں سزائیں تعزیرات پاکستان کے تحت دی جاتی ہیں۔اسی بنچ کی طرف سے سفارش کی گئی تھی کہ پارلیمنٹ قصاص اور دیت کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے قانون سازی کرے۔ یہاں قتل کے ملزم کو فی سبیل اللہ معاف کرنے کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت دی جانے والی سزا کو کیا ورثاءمعاف کرنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں کیوں کہ قانونی ماہرین کے مطابق اس ایکٹ کے تحت یہ ایسا جرم ہے جس سے معاشرے یا عوام میں عدم تحفظ پھیلتا ہے۔اس لئے اس ایکٹ کے تحت دی جانے والی سزا کو ورثا معاف نہیں کر سکتے بلکہ صرف عدالت ہی اپیل پر سزا کو معاف کرنے کی مجاز ہے۔ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور نظام انصاف میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کا یہ سنہری موقع ہے کیوں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس،جسٹس انور ظہیر جمالی نے زین قتل کیس کا از خود نوٹس لیتے ہوتے سر بمہر ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ عدالت عظمی اس مقدمے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے نہ صرف قصاص اور دیت سے متعلق احکامات کی واضح تشریح کرے بلکہ تعزیرات پاکستان کی موجودگی میں دیت کے اطلاق کے اصولوں کو بھی وضع کرے۔عدالت عظمی اس کیس کو بنیاد بنا کر تفتیش،پراسیکیوشن اور ماتحت عدالتوں میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے پولیس اورعدلیہ میں اصلاحات کی سفارشات بھی دے تاکہ زین قتل جیسے مقدمات کے فیصلوں سے لوگوں میں یہ یقین پختہ نہ ہو کہ پاکستان میں امیر آدمی کیلئے قتل کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
تازہ ترین