• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خلاف مرتب کردہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالےسے سیاسی قیادت اور عسکری حلقوں کا جو موقف سامنے آیا ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ دونوں کا موقف یکساں نہیں ہے ۔ یہ تاثر اس وقت پیدا ہوا ہے ، جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں ۔ اس طرح کا تاثر کبھی بھی نہیں پیدا ہوناچاہیےلیکن اس وقت یہ تاثرپیدا ہونا زیادہ نقصان دہ ہو سکتاہے۔اگلے روزاسلام آباد میں کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے آرمی چیف کا جو بیان جاری کیا گیا ، اس میں یہ کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے طویل المدت فوائدحاصل کرنےکےلیے گورننس بھی اسی طرح ہونی چاہیے۔ آرمی چیف کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ایکشن پلان کے بعض نکات پر عمل درآمد میں تاخیر سے آپریشنز متاثر ہو رہے ہیں ۔ اس کے جواب میں وفاقی حکومت کے ترجمان کا جو بیان جاری ہواہے ، اس میں کہا گیاہے کہ گڈ گورننس حکومتی پالیسی کا طرہ امتیاز ہے اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ وفاقی حکومت کے ترجمان نے ایک طرف تو واضح کر دیا کہ گڈ گورننس موجود ہے اور دوسری طرف یہ بھی بتا دیا کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ذمہ دار صرف وفاقی حکومت نہیں ہے ۔ان دونوں بیانات کا مزید موازنہ کرنامناسب نہیں ہو گااور نہ ہی ان بیانات کے بین السطور پہلوؤں کو اخذ کرنے کی کوشش موزوں ہو گی لیکن بیرونی قوتیں ہمارے قومی مفادات کے مطابق نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے تحت ہمارے معاملات کو دیکھتی ہیں ۔ اگرچہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے تمام ممالک میں سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے لیکن ہمیں یہ بات نظرانداز نہیں کرنی چاہیےکہ پاکستان ’’ بڑے کھیل ‘‘ ( Great Game ) کا میدان بنا ہوا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے حالیہ دورہ امریکا کے بارے میں اگرچہ وفاقی حکومت کے عہدیداران یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ دورہ بہت کامیاب رہا ہے لیکن غیر جانبدار مبصرین اور بین الاقوامی میڈیا نے اس دورے کو کامیاب قرار نہیں دیا ہے ۔پاکستان کی جوہری صلاحیت کے معاملے کو امریکیوں نے وزیر اعظم پاکستان کے دورے کا سب سے بڑا ایشو بنا دیا اور وزیر اعظم یہ کہہ کر آ گئے کہ پاکستان اپنی جوہری صلاحیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور اس پر ان کے حامیوں نے واہ واہ کر دی ۔ موجودہ حالات میں وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے موقع پر جو باتیں پاکستان کو امریکا سے کرنی چاہیے تھیں ، وہ امریکا نے کرنے ہی نہیں دیں ۔ امریکا نے جوہری صلاحیت ، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اورپاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں ہونے والی مبینہ کارروائیوں اور اس طرح کے دیگر معاملات میں دورہ کرنےوالے اعلیٰ سطح کے پاکستانی وفد کو دباؤ میں رکھا اور وزیر اعظم کے دورے کو صرف اس لیے کامیاب قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا ۔ امریکی صدر اوباما اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ، اس میں ہمارے خوش ہونےکےلیے صرف یہ بات کہی گئی کہ صدر بارک اوبامانے پاکستان میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت تعریف کی ۔ وزیر اعظم کے اس ’’ کامیاب ‘‘ دورےکے بعد اگر یہ تاثر بھی پیدا ہو گا کہ فوج اور سول حکومت دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمدکے حوالےسے الگ الگ موقف ہے اورپاکستان میں اچھی حکمرانی نہیںہے تو آرمی چیف کے آئندہ دورہ امریکا پر اس تاثر کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اس دورے کے نتائج کیا ہوں گے ؟
داخلی معاملات میں اچھی طرز حکمرانی کی ضرورت کی بات اگرچہ فوج کی طرف سے اب آئی ہے لیکن سول سوسائٹی بھی مسلسل یہی بات کر رہی ہے ۔ خارجہ امور میں بھی سویلین حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بھی پہلے سے سوالات موجود ہیں اور وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے بعد یہ سوالات زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں ۔ عالمی سطح پر اور اس خطے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بیرونی ممالک کے اپنے دوروں میں ایک ایسے ’’ وژن ‘‘ کے ساتھ پاکستان کےلیے سفارت کاری کی ، جو ’’ وژن ‘‘بدقسمتی سے سیاسی قیادت میں نہیں ہے ۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی قیادت نہیں پیدا ہوئی ، جو خارجی اور بین الاقوامی امور کا بھرپور ادراک اور حالات کا تاریخی تناظر میں شعور رکھتی ہو اور آگے بڑھ کر عالمی اسٹیج پر اپنا کردار منوا سکتی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ خارجہ امور میں ایک جرنیل کی سفارت کاری نے سویلین حکومت کی سفارت کاری کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کی ۔ جنرل راحیل شریف نے افغانستان ، ایران ، سعودی عرب ، متعدد خلیجی ممالک ، چین ، روس اور دیگر مختلف ملکوں کے دوروں میں پاکستان کے اس نئے کردار کی نشاندہی کی ، جو وہ بدلتے ہوئے حالات میں عالمی سطح پر عموماً اور اس خطے میں خصوصاً ادا کر سکتا ہے ۔ اب ان کا دورہ امریکا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس مرحلے پر قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کا حکومت کےلیے انتباہ بروقت ہے کہ حکومت کور کمانڈرز کا اشارہ سمجھے ۔انداز حکمرانی پر توجہ اورپارلیمنٹ کو اہمیت دے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی تجویز بھی بہت اچھی اور بروقت ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں ۔ قومی ایکشن پلان اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ سید خورشید احمد اور رضا ربانی کی باتوں کو محض اپوزیشن لیڈرز کی باتیں سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ۔ طرز حکمرانی بہتربنانے کی ضرورت اس لیے نہیںہے کہ صرف فوج کہہ رہی ہے بلکہ اچھی حکمرانی سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان کمزور ہوتے ہوئے رشتوں کو دوبارہ مضبوط کرے گی ۔ اس رشتے کی مضبوطی کی اس وقت بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ قومی ایکشن پلان اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت اس لیےہے کہ داخلی اور خارجی معاملات پر بدلتےہوئےعالمی حالات کےتحت ایک نئی قومی سوچ جنم لے اور نئے وژن اور قومی ایجنڈےکےساتھ سیاسی قیادت معاملات اپنے ہاتھ میں لے اور شاید فوج بھی یہی چاہتی ہے ۔ سیاسی قیادت کوصرف اپنے چھوٹےمقاصدکےلیے اپنی حکومتوں کی مدت پوری کرنے کی کوششوں سے بالا ترہونا پڑے گا اور اوپر اوپر تیرنے کی بجائے گہرے پانیوں میں اترنے کی تیاری کرنا ہو گی ، ورنہ پانی ازخود سر سے اوپر ہو جائے گا کیونکہ پانیوں کے نیچے بہت طاقتور لہریں اٹھ رہی ہیں ۔
تازہ ترین