• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں میڈیا کو ہر چھوٹے بڑے سیاسی معاملے کو زیر بحث لانے سے کم ہی فرصت ملتی ہے۔ سوگزشتہ دنوں ایک نہایت اہم خبر بیشتر اخبارات اور ٹیلی وژن چینلوں کی زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکی ۔خبر یہ ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے تمام سرکاری ملازمین کے ہڑتال اور احتجاج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس محمد ہاشم کاکڑ پر مشتمل ایک دو رکنی بنچ نے آل ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ ایک پٹیشن پر یہ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے تمام سرکاری ملازمین کی ہڑتال اور احتجاج کو ایک غیر قانونی اقدام قرار دیا۔جج صاحبان نے فرمایا کہ ڈاکٹروں اور اساتذہ کی ہڑتال سے براہ راست عوام متاثر ہوتے ہیں، اسلئے ان پر خاص طور پر اس پابندی کا نفاذ ہو گا۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر سرکاری خرچ پر تعلیم حاصل کرتے ہیں ، مگر ہڑتال کا راستہ اختیار کر کے وہ عوام الناس کوسہولت دینے کے بجائے انکے آزار کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح دیگر سرکاری ملازمین بھی احتجاج کے دوران سڑکوں کو بلاک کر کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ عدالت نے ہدایت جاری کی کہ سرکاری ملازمین اپنے مسائل کے حل کے لئے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے عدالت سے رجوع کریں۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ سرکاری اداروں کے سربراہان ہڑتال اور احتجاج کرنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کریں اور اگر اس سلسلے میں کوتاہی برتی گئی تو عدالت متعلقہ ادارے کے سربراہ کی گرفت کرے گی۔بلاشبہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو کہ مفاد عامہ کے تناظر میں کیا گیا ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں ہڑتال اور دھرنے کا چلن فروغ پا گیا ہے۔ چندروز قبل پی آئی اے کے پائلٹوں نے ہڑتال کی تھی۔ جسکی وجہ سے اندرون و بیرون ملک پروازیں تعطل کا شکار رہیں۔ ہزاروں لوگ شدید کوفت اور پریشانی میں مبتلا رہے۔ قومی ایئر لائن کو کروڑوں روپے کا خسارہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ نوجوان ڈاکٹرز بھی گزشتہ کئی برسوں سے یہی طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں۔ سروس اسٹرکچر اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے ہزاروں مریضوں کی زندگی اور صحت کو دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ایمرجنسی وارڈز میں علاج کا بائیکاٹ اور آپریشن تھیٹروں کی تالا بندی کر کے سڑکوں پر نعرے بازی کی جاتی ہے۔ یہی حال اساتذہ کا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اساتذہ کے ہاں ہڑتال تو کیا چھٹی تک کا تصور محال تھا۔ اب اساتذہ تعلیمی اداروں کے بجائے سڑکوں کو آباد کئے رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اداروں میں اس قسم کے احتجاج کا قطعی کوئی تصور نہیں۔بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ سرکاری اداروں میں تو آئے روز ہڑتال کی جاتی ہے۔مگر پرائیویٹ اداروں میں کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی اداروں میں ملازمین ایک خاص دبائو میں کام کرتے ہیں۔ ادارے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ ڈاکٹرز کی ہی مثال لے لیں۔ سرکاری اسپتالوں میں وہ با ت بے بات ہڑتال اور احتجاج شروع کر دیتے ہیں اور اپنے سینئرز کی مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے۔مگر نجی اسپتالوں اور کلینک میں قطعی مختلف طرز عمل اختیار کئے رکھتے ہیں۔ اوقات کار کی پابندی کرتے ہیں۔ مریضوں سے حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ ادارے کے قواعد و ضوابط کی بھی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں بیشتر ملازمین کو فرائض یاد رہیں یا نہ رہیں ، حقوق ضرور یاد رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم و بیش تمام سرکاری ادارے حکومت کو منافع دینے کے بجائے سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئےہیں۔اس معاملے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہر معاملے کو سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی سطح کا کوئی بھی معاملہ ہو ، اس میں قومی اور عوامی مفاد کے بجائے ، شخصی اور ذاتی مفاد مد نظر رہتا ہے۔سیاسی جماعتیں ،سرکاری ملازمین کے احتجاج کی صورت میں اصول ، قانون اور ضابطے کاساتھ دینے کے بجائے انکی حوصلہ افزائی کر کے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتی ہیں۔ کچھ ماہ سے خیبر پختونخوامیں نوجوان ڈاکٹر اپنے سروس اسٹرکچر اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ان ڈاکٹرز سے نمٹنے کے لئے کبھی پولیس کی مدد لیتی رہی اور کبھی انکو نوکریوں سے برخاست کرنے کی دھمکی دیتی رہی۔ تحریک انصاف نے ڈاکٹرز کو " ـــمافیا "قرار دیا جو حکومت سے ناجائز مطالبات منوانا چاہتا ہے۔حالانکہ یہی صورتحال پنجاب میں بھی تھی اور نوجوان ڈاکٹرز نے ایمرجنسی کا بائیکاٹ کیا، آپریشن تھیٹروں کو تالے لگائے سڑکوں پر احتجاج کر رہے تھے۔ جس سے کئی مریض اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ۔تب انکی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے عمران خان نے پنجاب حکومت کو ہدف تنقید بنائے رکھا۔ مزید برآں تحریک انصاف کے بہت سے رہنما ان ڈاکٹروں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انکی حوصلہ افزائی کی غرض سے انکے احتجاجی کیمپوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ آج مسلم لیگ (ن) اوراے این پی کے صوبائی رہنما خیبر پختونخوا میں سراپا احتجاج ڈاکٹروں کی حمایت کر رہے ہیں تو وہ بھی اسی غیر اخلاقی اور غیر قانونی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں جو تحریک انصاف پنجاب میں کرتی رہی ہے۔ سیاستدانوں کا یہی طرز عمل ہمارے ملک کے بڑے بڑے مسائل کی جڑ اور بہت سے معاملات کی اصلاح احوال میں رکاوٹ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اورتمام معاملات کومحض سیاست کی عینک سے دیکھنے کی روش ترک کریں ۔
چند روزقبل بلوکی پاور پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم صاحب نے فخریہ انداز میں بتایا کہ انکی حکومت کے ڈھائی سالوں میں کسی بھی بڑے ترقیاتی منصوبے میں کمیشن یا رشوت نہیںلی گئی۔ ماضی میں ایسے بڑے منصوبوں پر اربوں روپے کا کمیشن کمایا جاتا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ بات واقعتا قابل تحسین ہے۔ تاہم وزیر اعظم صاحب سرکاری اداروں کی حالت زار پر بھی توجہ دیں۔ اداروں میں اچھے سربراہوں کی تعیناتی، میرٹ پر بھرتیوں، اچھی انتظام کاری اور کارکردگی کے ذریعے ادروں کو منافع بخش بنایا جائے۔ اس طرح ملازمین کو بھی اچھی تنخواہیں اور مراعات ملیں گی تو وہ کیونکر سڑکوں پر آئیںگے۔ تاہم حکومتوں سے یہ سوال ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ ملازمین کے سڑکوں پر آنے اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد ہی انکے مسائل کیوں حل کئے جاتے ہیں اب جبکہ ایک بہت ہی اچھا فیصلہ سامنے آیا ہے تو اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہئے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف اسی صوبے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ پورے پاکستان پر یکساں طور پر نافذ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر ہر صورت عمل درآمدکروائیں۔آخر میں ایک بات یہ کہ اس حوالے سے میڈیا کا کردار بھی بے حد اہم ہے۔ غیر قانونی اور غیر مہذب احتجاج خواہ پنجاب میں ہو، خیبر پختونخوا میںیا کسی بھی دوسرے صوبے میں ، مسلسل میڈیا کوریج سے اسے تقویت پہنچانے کے بجائے،اسکی حوصلہ شکنی اور کڑی جوابدہی ہونی چاہئے۔
تازہ ترین