زرِمبادلہ کی آمدنی میں بڑا کردار بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تر سیلاتِ زر کارہا ہے ۔گو ہمارا تجارتی توازنِ ہمیشہ منفی رہا لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جاریہ اکائونٹ یعنی (Current Account) پہلی دفعہ 9/11کے بعد مثبت ہوا جب بیرونِ ملک کام کرنیوالوں کی تر سیلاتِ بڑھیں اور زرمبادلہ کے ذ خائر میں واضح اضافہ ہوا۔ 2000 کے عشرے کے شروع میں ملنے والی بیرونی امداد سے بھی جاریہ اکائونٹ میں بہتری آئی۔
بیرونی قرضوں کا بوجھ اور ادائیگی
ترقی پذیر ممالک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ترقی یافتہ ممالک کے قرضوں اور امدادسے ہوتا ہے ۔ اس طرح ترقی یافتہ ممالک کا سرمایہ ترقی پذیر ممالک میں منتقل ہو جاتا ہے- ترقی یافتہ ممالک شرائط کے بغیر بھی یہ رقوم فراہم کریں تو بھی ان کے پیشِ نظر ترقی پذیر ممالک کا قومی مفاد نہیں ہوتا۔ یہ رقوم امدادحاصل کرنے والے ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرتی ہیں نہ قومی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہو تی ہیں ۔عمومی طور پر صنعتی ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے دی جانے والی امداد کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی پیداواری صلاحیتوںاور انکی اقتصادی خودمختاری میں کس قدر اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان کو اپنے زرِمبادلہ کی ضروریات پورا کرنے کیلئے بیرونی امداد اور قرضوں پر ا نحصار کرنا پڑتا ہے۔ منفی تجارتی توازن کی بنا پر ان قرضوں اور امداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لئے جا تے رہے اور سود کی رقم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ بہر حال اصل رقم اور سود کی ادائیگی وقت پر ہوتی رہی۔
غیر دستاویزی معیشت
حکومت کومقامی پیداوا ر بڑھانے اور زرِمبادلہ کے ذ خائر پر موثر کنٹرول کیلئے اقدامات لینے پڑتے ہیں جن میں کوٹہ، ٹیرف، کرنسی اور شرحِ سود وغیرہ شامل ہیں ۔دوسری طرف ایسے اقدامات سے بچنے کے لئے لوگ مختلف راستے نکالتے ہیں اور جب قانون پر عملداری کمزور ہو تو اسمگلنگ اور انڈر انوائسنگ میں اضافہ ہوتا ہے جس سے غیر دستاویزی معیشت پروان چڑھتی ہے۔عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی متوازی معیشت ملک کے کل جی ڈی پی کا 56 فیصد ہے جبکہ چیئرمین FBR (ایف بی آر) کے مطابق یہ 79صدکے قریب ہے۔اس غیر دستاویزی معیشت سے حکومتی محاصل میں کوئی اضافہ نہیںہوتا ۔ اگر یہ ٹیکس کے دائرے میں آ جائے تو عالمی بنک کے اندازے کے مطابق حکومت کو1.79ٹریلین (کھرب) روپے اور ایف بی آر کے اندازے کے مطابق 5.83 کھرب روپے کے محاصل حاصل ہوں گے- ایسا ہو جائے تو پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
کیا کرنا چاہئے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیشت کو صحیح راہ پر گامزن کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ پاکستان کے لئے سب سے پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ خود انحصاری اور بیرونی قرضوںمیں توازن کیسے رکھا جائے۔ واجب الادا بیرونی قرضوں کو مناسب حد میں رکھنے کے لئے پاکستان کو امداد اورقرضوں کے حصول کے لئے نہایت محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تک حاصل کی گئی امداد اور قرضے معیشت کو سہارا دینے کے بجائے نقصان کا باعث ہی بنے ہیں۔اس سلسلہ میں مخصوص پالیسی اقدامات اور اداراتی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے لہذا مندرجہ ذیل اقدامات قابل غور ہیں۔
پیداواری ڈ ھانچے کی ہم آہنگی
ملکی صنعت کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر پیداواری ڈھانچے کا رخ بدلنے کی ضرورت ہے۔ IFI اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے قرضوں اور امداد پر نظر نہ رکھی جائے بلکہ انکی حوصلہ شکنی کی جائے ۔آج بھی پاکستان کی چند بڑی برآمدات محض ٹیکسٹائل اور اس سے بنی مصنوعات پر مبنی ہیں۔ دیگر شعبوں میں ڈ بوں میں بند تیار شدہ کھانے کی اشیاء، کیمیکلز اور انجینئرنگ کی مصنوعات بھی بر آمد کرنے پر توجہ دی جائے۔بیرونی قرضوں اور امداد پر انحصار کرنے کے بجائے ہماری صنعتی پالیسی کا کلیدی محور بنیادی اور بھاری ا نجینئرنگ انڈسٹری کی ترقی ہونا چاہئے۔
خود انحصاری
بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے زرِ مبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے جو بد قسمتی سے ہم غیر ملکی امداد اور قرضوں سے پورا کرتے آئے ہیں۔ در حقیقت یہ قرضے اور امداد تر قی پذیر ممالک کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کے فروغ میں معاون ہوتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کثیر مقدار میں مشینر ی اور خام مال (غذائی اجناس کے علاوہ) درآمد کرتے ہیں اور سرمایہ کاری،پیداوار اور برآمدات سے محروم رہتے ہیں۔ بیروز گاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس صورتِحال سے نکلنے کا حل ِصحت اور سماجی و معاشی ڈھانچے کی مضبوطی میں مضمر ہے۔ اگر ایسے اقدامات نہ کئے گئے تو مختلف طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی رہے گی۔ ترقی یافتہ ممالک نے بھی اب اس بات پر زور دینا شروع کر دیا ہے کہ امداد لینے والے ممالک پہلے اپنے اندرونی وسائل پر انحصار کریں۔پاکستان کو بھی اس جانب توجہ دینا چاہئے تاکہ خود انحصاری کی طرف سفر شروع ہوسکے۔
معدنی وسائل کی در یا فت
پاکستان قدرتی وسائل سے ما لا مال ملک ہے۔ ہمارے پاس تیلِ، گیسِ، تانبا،ِ کوئلہ اور سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ان معد نیات کودریافت کرکے ترقی یافتہ ممالک کو برآمد کرنے سے بھاری زرِ مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے جو خود انحصاری میںنہایت معاون ہو گا۔
ترسیلِ زر میں سہولتیں
ہماری معیشت اورزرِ مبادلہ کے ذخائر کو بڑ ھانے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اسکیم سے مزیدفائدہ اٹھانے کے لئے زرِ مبادلہ کی تر سیلات میں آسانی پیداکی جائے ۔ اس ضمن میں بنک دولت پاکستان کی دی جا نیوالی مراعات جن کے ذریعے بیرون ملک پاکستانی قانونی طور پر زر مبادلہ منتقل کر سکتے ہیں بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں ۔یہ جاری رہنا چاہئیں ۔ان اقدامات سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں جلد اضافہ ممکن ہے۔ منتخب ممالک کے ساتھ ہنر مند، نیم ہنر مند کار کنوں کی فراہمی کے معاہدے بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید بر آں کم ہنر مند افراد کی صلا حیتوں کو بہتر بنا کر نئی مارکٹیں تلاش کی جا سکتی ہیں جو ترسیلات زر میں اضافہ کا باعث ہونگی ۔
نجی اور حکومتی شراکت داری
عالمی بنک کے ایک تخمینے کے مطابق بنیادی ڈھانچے میں حکومتی سرمایہ کاری کا حصہ 70 فی صد، حکومتی ترقیاتی اداروں کا 8 فی صداور نجی اداروں کا 22 فی صد ہے ۔اس طرح حکومتی اور نجی تعاون معیشت کی بہتری کے لئے اولین ترجیح ہو سکتی ہے۔فی الوقت کم اور در میانی آمدنی والے ممالک میں بنیادی ڈھانچے میں نجی شعبے کا حصہ 30فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ بیوروکریسی کے انتظامی ڈھانچے کی افادیت مسلمہ ہے۔ اس میں کارپوریٹ سسٹم کی فنانس، سپلائی چین، ہیومن ریسورس اور مارکیٹنگ جیسی صلاحیتوں کو شامل کرکے کارو باری انتظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر اس بات کا ادراک پایا جاتا ہے کہ نجی شعبہ ہنر، جدت، ٹیکنالوجی، فنانس میں ماہر ہے اور اس قابل ہے کہ اہم پرو جیکٹ کو بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ یہ شراکت انتظامی صلاحیتوں اور بیو رو کریسی کے تعاون سے اچھے نتائج حاصل کرسکتی ہے ۔
برآمدی آگاہی
پاکستان کی بیشتر برآمدات ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، کھیلوں کے سامان، کیمیکلز اور قالینوں پر مشتمل ہے۔ صرف ٹیکسٹائل کی مد میں برآمدات کا 50 فی صد حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان نے 1950 کے اواخر میں متبادل درآمدی پالیسی متعارف کرائی جو 1960 تک جاری رہی۔ 1970 میں برآمدات کے فروغ کی پالیسی اختیار کی گئی۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر تجارتی توازن بہتر کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے گئے جن میں کسٹم ڈیوٹی اور ٹیرف کا ردو بدل، ایکسپورٹ پراسسنگ زونز کا قیام وغیرہ شامل تھے۔ تا ہم تجارتی خسارہ بدستور رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں پیدا کی جانے والی مصنوعات کے حجم اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے بہتر نظم و نسق اور نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے جبکہ حکومتی پالیسیاں بھی اس میں معاون ہوں۔ ملکی صنعت کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ جو اشیاء ملک میں پیدا کی جارہی ہیںانکی درآمد پر پابندی ہو ۔ یہ پالیسی ہمسایہ ملک بھارت میں نا فذ ا لعمل ہے اور بہت سود مند ثابت ہوئی ہے۔
لیس للا نسان الا ماسعیٰ
(انسا ن کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی)
.