SMS: #KMC (space) message & send to 8001
پاکستان کی 69سالہ تاریخ میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد اقتدار کا عروج زوال اس تیزی سے ہوتا رہا کہ بسا اوقات تاریخ کے طالبعلم کو بھی یہ یاد تک نہیں رہتا کہ کونسا گورنر جنرل اور کونسا وزیراعظم کب اور کس کے بعد آیا البتہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء اور ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت کے بعد پاکستان کی تاریخ میں فوجی اور سویلین اقتدار کو اتنا وقت ملتا رہا کہ عوام حکمرانوں کے نام کے ساتھ ساتھ فوجی اور سویلین اقتدار کے دورانیے کو بھی یاد رکھیںگے جبکہ فوجی اور سویلین اقتدار کے درمیان مدت اقتدار کی تقسیم بھی تقریباً برابر ہی رہی تاہم بعض سیاستدانوں اور دانشوروں کے نزدیک اقتدار کا جو حصہ سویلین کے پاس رہا اس پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا دبائو برقرار رہا۔پاکستان کو معرض وجود میں آئے 69برس ہونے کو ہیں، مزار قائد کا سنگ مر مر بھی میلا ہوگیا،بنگلہ دیش بھی بن گیا، کتنے وزیراعظم اور صدر قتل کر دیئے گئے یا اپنی طبعی موت دنیا سے رخصت ہو گئے، سیلاب آئے، زلزلے آئے، جنگیں ہوئیں، قحط پڑے، تحریکیں چلیں، فرقہ واریت اور دہشت گردی نے اپنا کام دیکھایا، بہت سے ادارے تباہ ہوگئے، بہت سی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ..... مگر ان تمام افسوسناک واقعات اور مایوس کن حالات میں بھی ’’پاکستان‘‘ منزل بہ منزل آگے بڑھتا رہا، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا سفر سست روی ہی سے سہی مگر جاری رہا، پاکستان ایٹمی ملک بن گیا، پاکستان عالمی سطح پر نمایاں حیثیت سے موجود رہا، عالمی امن اور خطے کے استحکام کیلئے پاکستان کی خدمات اور قربانیاں قابل قدر ہیں، پاکستان فوجی قوت اور اسلامی نظریاتی شناخت ر کھنے والا منفرد اہمیت کا حامل ملک رہا، موٹر ویز سے سی پیک منصوبے تک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے جبکہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے بھی حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں کی جارہی تھیں، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور تجارت کو فروغ دینے سمیت زراعت کو بہتر بنانے کیلئے بھی کام ہورہا ہے، صحت، تعلیم اور دیگر جن شعبوں میں صورتحال تسلی بخش نہیں ہے اس پر بھی توجہ کی جارہی ہے۔لہٰذا اگر دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ’’پاکستانی قوم‘‘ کی کارکردگی مایوس کن نہیں رہی بلکہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور ناقص پالیسیوں کے باوجود پاکستان کے عوام پرامید رہے۔ اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ جب تک ہر ملکی ادارہ قابل مواخذہ نہیں ہوگا تب تک نہ تو حقیقی جمہوریت قائم ہوسکے گی اور نہ ہی ’’گڈگورننس‘‘ کا کوئی تصور ہوگا، آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا، پارلیمنٹ کے اختیارات کو تسلیم کرنا ہوگا، صوبوں کو آئینی خودمختاری دینا ہوگی، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرنا ہوگا، پانامالیکس سے نیوز لیکس تک سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کرپشن کو ہر سطح پر اور ہر قیمت پر روکنا ہوگا، حب الوطنی کو فروغ دینے کیلئے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے جو سیاستدان قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر پاکستان زندہ باد کہنے کیلئے تیار نہیں یا یہ کہ خیبرپختونخوا کو افغانستان کا حصہ قرار دینے جیسی نامعقول گفتگو کررہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، ’’را‘‘ کی وکالت اور ’’آئی ایس آئی‘‘ پر تنقید کرنیوالوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کرنا ہونگے، عدلیہ کو بااختیار اور صحافت کو آزاد رکھنا ہوگا، بیرون ملک کے برسرروزگار اور قید پاکستانیوں کے مسائل اور معاملات پر توجہ دینا ہوگا۔امید ہے کہ پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے بااختیار اوربے اختیار تمام طبقات ہماری مذکورہ گزارشات پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
.