• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا کی تازہ بہ تازہ پوسٹ، تفریح طبع کے لیے، ’’خان صاحب! ثبوت نکالنے کا کہا تھا، آپ نے حامد خان نکال دیا‘‘۔ ’’نوازشریف تم مجرم ہو۔ جرم ثابت ہو چکا۔ تم نے چوری کی ہے۔ تلاشی دو یا استعفیٰ دو۔ 2نومبر کو اسلام آباد بند کر دیں گے۔ اسلام آباد کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ کشتیاں جلا کر آرہے ہیں۔ اس وقت تک قبضہ برقرار رکھیں گے، جب تک نوازشریف کو گھسیٹ کر نکال باہر نہ پھینکا۔ صرف سپریم کورٹ کو کام کرنے کی اجازت ہو گی‘‘۔ تخویف ِمجرمانہ، دھمکی، ڈراوا، گیڈر بھبکیاں جیسے ہتھکنڈے شعار رہے۔ کئی ماہ علم البیان، پرتکلف آراستہ پیراستہ مبالغہ انگیزی، چیئرمین تحریک انصاف کے فرمودات عالیہ کی زینت بنے۔ قادر الکلامی کا کمال ہی کہ آج قوم متضاد خیالات، نفرتوں، کدورتوں کے دو مستند گروہوں میں بٹ چکی۔ ہم مسلک اپنے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر ہمہ وقت تیار و مستعد۔ بدنصیبی تحریک انصاف، تحریک انتشار میں آسودگی ڈھونڈ چکی۔ رعب جمانے والے بڑے بڑے بول بولے۔ اردو لغت کی گندی تلچھٹ چھانٹ ڈالی۔ بول بچن، غرور، تکبر، رعونت اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ٹھہرے۔ سزا اسی دنیا میں اور کڑی۔ جس دن سپریم کورٹ نے پانامہ پٹیشن سماعت کے لیے منظور کی، سپریم کورٹ رعونت کا حصہ بنی۔ بھرے جلسے کو مژدہ سنایا ’’آپ لوگوں کے دبائو کا نتیجہ ہی کہ سماعت کے لیے منظور ہوئی‘‘۔28 اکتوبر کو شیخ رشید کی شاندار ناکام ریلی کو پولیس کی متشددانہ کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا۔ سمجھا، عوامی ردعمل ہوگا۔ اگلے دن، پورے ملک میں احتجاج، جلوس، ریلیوں، ہڑتالوں کی کال دی۔ بری طرح ناکامی کا سامنا ہوا۔ ہاتھوں کے طوطے اڑنا، چھکے چھوٹنا لازم تھا۔ سیاسی رمز رموز سے لاعلمی کے اپنے مزے۔ قابلیت اور ذہنی استعداد سے محرومی، آج مضحکہ خیز فیصلوں کی بنیاد یہی تو ہے۔ یکم نومبر کو جب سپریم کورٹ نے کیس کی تاریخ کا دن مقرر کیا تھا۔ خیال اغلب کہ دو نومبر کی ہزیمت سے بچنے کے لیے فیس سیونگ کا راستہ مل گیا۔ عمران خان بھلا کیسے سمجھتے۔ جب تک منطقی انجام کو نہ چھولیں، ڈٹے رہتے ہیں۔ 29 اکتوبر ہڑتال کی کال پر، وطنی سرد مہری پر کھلبلا گئے۔ اگلے دن فرسٹریشن میں 31اکتوبر کو پورے پاکستان کو اپنے گھر بلا لیا۔ تفصیل جاری، طعام وقیام کا معقول بندوبست گارنٹی کے ساتھ۔ خیال ہوگا کہ اگلے دن کی سماعت کو زیراثر لایا جائے۔ قابل ذکر سرکاری سرپرستی میں خیبر پختونخوا سے صوابی آنے والے والے چند ہزار افراد ہی میسر رہے۔ دوسری طرف پنجاب کی حرکت نے برکت ڈالنی تھی۔ بوجہ تمام لواحقین و متاثرین کی عدم دلچسپی بمع حکومتی تادیبی ہتھکنڈے، 31اکتوبر کو پنجاب کی بے اعتنائی اور بے توجہی پچھلے سال کے بلدیاتی الیکشن کی ولولہ انگیز شکست کو مات دے گئی۔ اسلام آباد بلاوا ناکام ہوا تو دو نومبر کی کال کو برقرار رکھنا، سمجھ سے بالاتر؟ یکم نومبر پر سپریم کورٹ کی ابتدائی کارروائی، سماعت 7نومبر تک کیلئے ملتوی ہو گئی۔اس کارروائی کو تحریک انصاف نے اپنی فتح مبین جانا، دو نومبر بطور یوم تشکر منانے کی ٹھانی۔ باوجودیکہ حکومت نے ہر سطح پابندیاں ہٹا دیں۔ دو نومبر کا جلسہ پارٹی قیادت اور کارکنوں کو مایوس کر گیا، ناکام ترین جلسہ کہلایا۔ اس حادثہ کے بعد سارا بوجھ سپریم کورٹ پر آنا ضروری تھا۔ 17 نومبر تک پانامہ کیس پر چار بار عدالت سج چکی۔ 17نومبر کو اگلی سماعت، 29نومبر مقرر ہوئی۔ ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں ہوئی۔ سمجھ نہیں آیا، تحریک انصاف کو مایوسی نے کیوں گرفت میں لے لیا۔ 17 نومبر کوعدالت سے نکلتے ہی شیخ رشید اور عمران خان کا تیکھا پن مرجھایا نظر آیا۔ حامد خان کو توہین آمیز انداز میں مقدمہ سے فوری طور پر علیحدہ کر دیا گیا۔ نئے وکیل کی شہرت ٹھیک، عدالت عالیہ کے ججوں کے دلوں میں عزت نہ اور نہ ہی ساتھی وکلاء کی رائے مناسب۔ ایسے بندے کو فوراً وکیل تعینات کرنا، ذہنی دیوالیہ پن ہی کہلائے گا۔ اسی دن، چند گھنٹے کے اندر، سوشل میڈیا تحریک انصاف کا موثر ہتھیار، سپریم کورٹ اور اپنے ہی رہنما بااصول و باکمال حامد خان صاحب کو توپ و تفنگ کی زد میں لے چکا تھا۔
بیک وقت ریشم مانند نرم اور فولاد جیسی قوت مدافعت رکھنے والے اکرم شیخ آئینی، کریمنل، سول، کمرشل لاء کی پریکٹس میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ جواب داخل کروایا تو کیس کو مختصر اور سادہ بنا گئے۔ جناب اکرم شیخ نے فلیٹس کی خریداری 2006 بتائی جبکہ ترسیل رقم کی راہداری کا مکمل نقشہ بمع بیان حلفی جمع کرایا تو عمران خان کا کام آسان کر گئے۔ کرنے کا کام فلیٹس کی خریداری کو غلط ثابت کرنا اور جمع شدہ ترسیل سرمایہ بارے ایک نکتہ، ایک کاغذ، ایک دستاویز جھوٹی یاجعلی یا حقائق کے منافی دکھانا رہ گیا۔ کیس آسان، تہ میں دو پوائنٹس ہی تو ہیں۔ عدالت کو بتائی تاریخ خریداری کو غلط ثابت کر دیں یا ترسیل سرمایہ کے پیج وخم میں غیر قانونی سقم ڈھونڈ نکالیں۔ بمطابق انگلستان قوانین ساری چیزیں باآسانی دستیاب ہیں۔ ثبوت مہیا کرنے کے لیے حامد خان کو دو ہفتوں کا وقت دیا گیا۔ عدالت کا مطالبہ، ثبوت لائو، کہ عمران خان مہینوں سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جناب اکرم شیخ کے پیش کردہ حقائق کو جھٹلائو۔ عدالت نے بغیر لفظ چبائے، قانون کی باریکیاں وکلاء حضرات کو ذہن نشین کرا دیں۔ ’’جواب دعویٰ داخل ہونے کے بعد، اس کو غلط ثابت کرنا عمران خان کے وکلاء کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ساتھ ہی عدالت نے واضح کیا کہ ’’شک کا فائدہ ملزم کو ملے گا‘‘۔ مزید براں ’’سب سے پہلے احتساب وزیراعظم اور فیملی کا ہی ہو گا۔ کیس فلیٹس کی خریداری اور پانامہ لیکس تک محدود رہے گا‘‘۔ اس میں بھلا حامد خان کہاں مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ سپریم کورٹ بارے، انصافی سوشل میڈیا زہر کیوں اگل رہا ہے؟ اگر کیس ثابت ہو گیا تو ایک نکتہ بھی جھوٹا ثابت ہوا تو یقیناً نواز شریف بمع اہل و عیال بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اگر عمران خان ثابت نہیں کر پائے تو ساکھ کی آخری رتی سے محروم ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔
میدان، گھوڑا سب کچھ حاضر، ثبوت پیش کرو۔ اگلے دن جب انگلستان پہنچے۔ پہلا ارشاد، ’’ثبوت تو نوازشریف نے پیش کرنا تھے، ہم تو سپریم کورٹ کی مدد کے لیے ہیں۔ یعنی کہ اپنے تئیں عدالت کے مددگار اور کنسلٹنٹ (Amicus Curiae)بن چکے ہیں۔ لو، کر لو جو کرنا ہے، نیا روپ دھار لیا۔ پچھلے کئی مہینوں سے گھنائونے، جھوٹے، سچے الزامات کی بوچھاڑ، قوم کا وقت برباد رکھا، حساب دینا ہوگا۔ اب جب ثبوت کا وقت آیا تو ؎
محشر میں پہنچے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
ایک دن پہلے انگلستان ہی سے عجیب وغریب نیا بیان داغ دیا۔ ’’ہم نے تلاشی لینے کا مطالبہ کیا تھا، تلاشی تولنے کا نہیں۔ اصل مسئلہ تلاشی لینے کا ہے جبکہ تلاشی تو لی جا رہی ہے‘‘۔ عمران خان کی علم البیانی کو کوئی نہیںپچھاڑ سکتا۔ یہ کہنا کہ ’’تلاشی تو لی جا رہی‘‘، کہیں عدالتی نظام کی تضحیک کی ایک اور دیدہ دلیرانہ کوشش تو نہیں؟ معمولی غلط بیانی یا ہیر پھیر کو ثابت کرنے کے لیے معمولی ثبوت ہی تو درکار تھے۔ بلا ثبوت، کیچڑ اچھالنا ہر شخص اور ادارے کی تذلیل کرنا، سیاسی کاروبار بن چکا۔ کیا ڈگڈگی، طبلچی، بندر ناچ کا کھیل تماشہ وطن عزیز کی قسمت کا جزو لاینفک بن چکا ہے؟ ایسا کاروبار بند ہو پائے گا؟
اگلے کالم کے آنے تک، نیا سپہ سالار اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکا ہو گا۔ سوشل میڈیا نے ممکنہ نئے چیف کے نام پر ’’ات‘‘ مچا رکھی ہے۔ فوائد مضمرات کی بہتات، عسکری ادارے کے تقدس کو پامال کر رہی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 243(4)(b) کی موجودگی میں، ایسی کوششیں، سعی لاحاصل ہی رہیں گی۔ اِن شاء اللہ وزیراعظم پاکستان جس کو چاہیں گے، صدر کو نام کی ایڈوائس بھیج دیں گے، صدر محترم اس کا تقرر کر دیں گے۔ میری، آپ کی پسند ناپسند کی کوئی حیثیت نہیں۔ دلہن وہی جو پیامن بھائے، اس کیس میں پیاوزیراعظم پاکستان۔




.
تازہ ترین