• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف اپنی مدت ِ ملازمت پوری کرکے گھر جارہے ہیں۔ یہ روایت اُن کے لئے ، فوج کے لئے اور ملک کے لئے بہت بہت اچھی ہے۔ ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ نامی میڈیسن کی شیلف لائف میں مزید دودن باقی، اس کے بعد ماہرین کی یہی جانی پہچانی ٹیم ایک نیا مسیحا میدان میں اتارے گی ۔اگلے چند سال مسیحائی کے انتظار میں ان کی آنکھیں دہلیز پر اور کان بوٹوں کی آہٹ پر لگے رہیں گے۔ چلیں انہیں ان کے ’’کام‘‘ میں مگن چھوڑ کر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی وراثت کیا ہوگی؟
جنرل صاحب کی دوبڑی کامیابیاںاور ایک ذاتی خوبی ہے جس کی وجہ سے اُنہیں ’’اپنے دور کا عمدہ ترین فوجی قائد‘‘قرار دیا جاتا ہے ۔ کامیابیوں کا ذکرپہلے ۔ اُس وقت کو یاد کریں جب ریاست پاکستان نے تحریک ِطالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے اور فاٹا میں کوئی ڈیل کرنے کے لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی۔آپ کو وہ لمحات یاد ہوں گے جب بہت سے ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کارٹی ٹی پی کے بارے میں بات کرنے سے خائف تھے ۔ وہ گفتگوکے درمیان انتہا پسندوں کے نمائندوں کو ’’آن لائن ‘‘ لیتے تاکہ توازن قائم رہے ۔ ہم وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتے جب یہ نام نہاد ماہرین ہمیں بتایا کرتے تھے کہ طالبان سے جنگ کرنا خطرناک ہوگاکیونکہ ہم اُن سے نہیں جیت سکیں گے ۔ تاہم یہ ماضی ہے ۔اگرچہ جنرل کیانی کے دور میں زیادہ تر ایجنسیوں کو انتہا پسند وںسے کلیئر کرالیا گیا تھا ، اور صرف ایک، شمالی وزیرستان، باقی تھی۔ ضرب ِعضب فیصلہ کن وار ثابت ہونے والی تھی ، لیکن اس میں کچھ وقت باقی تھا۔ 2014 کے موسم ِبہار میں جنرل راحیل کی کمان میں فیصلہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی اور اس کے دیگر کزنوں ، جیسا کہ کالعدم لشکر ِ جھنگوی کو فیصلہ کن انجام سے دوچار کرنا ہوگا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بہت سے دقیانوسی سوچ رکھنے والے سیاست دان ان دہشت گردوں کو ’’ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی ‘‘ قرار دے رہے تھے ۔ کہا جارہا تھا کہ یہ ’’غیر ملکیوں کی مسلط کردہ جنگ ‘‘ میں داد ِ شجاعت دے رہے ہیں۔
یہ جنرل راحیل شریف تھے جنہوں نے کراچی کے مافیاز اور انتہا پسندوںکی کمر توڑی اور بلوچستان اور پنجاب میں انٹیلی جنس کی بنیادپر متعدد کارروائیاں کیں۔ جنرل صاحب سے پہلے ہم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں مبہم رویہ رکھتے تھے ، لیکن پھر تمام دھند صاف ہونے لگی۔ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ضرب ِعضب کی کامیابی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا ہے ۔ اس میں صرف ایک ایجنسی کو کلیئر کرایا گیا اور اس میں بہت سا وقت لگ گیا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو لیکن آج ملک کو دہشت گردی سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ضرب ِ عضب سے پہلے تھا۔ دوسری بڑی کامیابی یہ کہ جنرل راحیل شریف نے نہ تو اقتدار پر قبضہ کیا اور نہ ہی اپنا ذاتی مفاد پیش ِ نظر رکھا۔ہمارے ہاں پائے جانے والے ماحول میں اگنے والی ترغیبات کی کھیتی سے کنارہ کشی کرنا بہت بڑی کامیابی ہے ۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے تھے کہ مشرف نے آئین کو پامال کیا، اور جنرل کیانی نے اگرچہ سیاسی حکومت کو چلتا نہ کیا لیکن مدت ِ ملازمت میں توسیع قبول کرلی، لیکن جنرل راحیل شریف نے اپنے قدم صاف رکھے ، یہاں تک کہ اب وہ اپنے بوٹ اتارنے جارہے ہیں۔
اس بات پر بحث شاید آنے والے دنوں میں ہوتی رہے کہ کیا جنرل راحیل توسیع چاہتے ہی نہیں تھے ،یا وہ لے نہ سکے ؟ ایک آرمی چیف اپنی مدت ِ ملازمت میں خود توسیع نہیں کرسکتا، اور ہم نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ اُنہیں حکومتی حلقوں کی جانب سے توسیع کی پیش کش کی گئی ہو۔ تاہم قیاس آرائیوں کی دھند صاف کرنے کے لئے انھوںنے کافی عرصہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ توسیع کی پیش کش قبول نہیں کریں گے ۔ اس کے باوجود مسیحائی کے منتظرعرق ریزی سے باز نہ آئے ۔ کچھ اینکرز اور تجزیہ کار تو اُنہیں باقاعدہ مداخلت کی دعوت بھی دیتے رہے۔ اسلام آباددھرنوں کے دوران اس کا ماحول بن بھی گیا تھا ۔ توکیا جنرل صاحب اس عزم (اگر کوئی تھا ) کا کھل کر اظہار نہ کرپائے ؟ کیا وہ چاہتے ہوئے بھی بوجوہ سیاسی مداخلت سے باز رہے ؟کیا اُن کی شاندار خاندانی روایات اُن کے عزائم کا راستہ روکتی رہیں؟جو بھی سچائی ہو، ایک بات طے ہے کہ جنرل راحیل وہ انتہائی مقبول چیف تھے جنہوں نے کبھی فوج کی قیادت کی ہو۔ اب جبکہ وہ قاعدے اور قانون کے مطابق گھرجارہے ہیں، تو اُس سے اُن کی عزت و وقار میں مزید اضافہ ہوگا۔
جنرل صاحب نے بہت متحرک دور گزارا ۔ اُن کی پروفیشنل زندگی ہمارے سامنے رہی، لیکن اُن کی ذاتی زندگی عوام کی نظروںسے اوجھل رہی۔ وہ ایک اسکینڈل سے پاک دور گزار نے میں کامیاب رہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ اُن کے بچے کیا کرتے ہیں، ہم نے اُن کے کسی ماتحت یا سینئر سے اُن کے بارے میں کوئی ناروا بات نہیں سنی ۔ وہ عیداگلے مورچوں پر لڑنے والے جوانوں کے ساتھ منایا کرتے تھے ، وہ شہید ہونے والے جوانوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوتے اور اُن کے اہل ِ خانہ کی ڈھار س بندھاتے ۔ درحقیقت اُنھوںنے فوج کی ساکھ بحال کردی۔
تاہم جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے کچھ چیلنجز ضرور چھوڑ کر جارہے ہیں، اور وہ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے اُنہیں ملے تھے۔ یہ درست ہے کہ ضرب ِعضب نے فاٹا اور دیگر علاقوںسے انتہا پسندوں کی کمرتوڑ دی ہے لیکن فی الحال ملک میں انتہا پسندی کے بارے میں واضح سوچ نہیں پنپ سکی۔ ابھی بھی ملک بھر میں انتہا پسندی کو فروغ دینے والی فیکٹریاں فعال ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ملک میں انتہا پسندی کی لیبر فورس تیار ہورہی ہے ، اور وہ القاعدہ، تحریک طالبان یا داعش ، کسی کی صفوں میں بھی شامل ہوسکتی ہے ۔ ہماری سیکورٹی سوچ ابھی تک جہادی انٹر پرائز کو اہمیت دیتی ہے ۔ ریاست صر ف اُن انتہا پسندوں کے خلاف لڑرہی ہے جو ہتھیار اٹھا کر اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہیں ، جبکہ دیگر سے اغماض برتا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے ہماری سوچ جمود کا شکار ہے۔
دوسری بات لائن آف کنٹرول اور بیرونی سیکورٹی کے مسائل ہیں۔ بھارت کو سبق سکھانے ، جو ٹیکسٹ بک میں لکھا جائے گا، کی بات کرتے ہوئے ہمارا پلان دراصل کیا ہے ؟اگر بھارت اپنی معیشت اور حجم کے مطابق اپنی عسکری صلاحیت بڑھاتا گیا تو ہم کب تک اس پالیسی پر عمل کرسکیں گے ؟آخری مسئلے کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے ہے ۔
فوج کو بالا دستی حاصل ہے کیونکہ سیاست دان بدعنوان اور نااہل ہیں۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ کیا آج کے دور میں صرف ایک ادارہ، چاہے وہ کتناہی منظم اور توانا کیوں نہ ہو، ملکی طاقت میں اضافہ کرسکتا ہے؟ ہماری خواہش ہے کہ جنرل راحیل کے جانشین ان مسائل سے عہدہ برا ہوں۔ نئے چیف کو نہ صرف یہ چیلنجز وراثت میں ملیں گے بلکہ ایک پوری پاکستانی نسل بھی جس کے ذہن میں سابقہ آرمی چیف ہوں گے۔


.
تازہ ترین