آپ کو یاد ہے، ہم نے جب بڈھے گیدڑ کی سالگرہ منانے کی پکی ٹھان لی تھی۔ تب بڈھے گیدڑ نے کیا کہا تھا؟ یاد نہیں ہے نا۔ ویسے بھی بڈھا گیدڑ دانشور یا فلسفی تو ہے نہیں کہ اس کی باتیں یاد رکھی جائیں۔ سالگرہ منانے سے انکار کرتے ہوئے بڈھے گیدڑ نے کہا تھا۔ ’’ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ہم ازلی انخلا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ سالگرہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
بڈھے گیدڑ کی بات سن کر ہمیں دھچکا لگا تھا اور جھٹکا بھی لگا تھا مگر ہم باز نہیں آئے۔ بڈھے گیدڑ کے لاکھ بار انکار کرنے کے باوجود ہم نے اس کی سالگرہ منا ڈالی۔ بڈھا گیدڑ خیر سے اب اسی برس کا ہوگیا ہے۔ سندھی کی ایک کہاوت ہے، ’’اسی مت کھسی۔‘‘ مطلب ہے، اسی برس کا ہوجانے کے بعد آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔ کہاوت کی صداقت پرکھنے کیلئے ہم دوستوں نے بڈھے گیدڑ سے پوچھا۔ ’’بڈھے گیدڑ تم اب خیر سے اسی برس کے ہوگئے ہو۔ تم کیا محسوس کرتے ہو؟ کیا تمہاری مت ماری گئی ہے؟‘‘
’’تم یہ سوال مجھ سے کیوں کرتے ہو۔‘‘ بڈھے گیدڑ نے کہا ’’تم یہ سوال سندھ کے وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ سے کیوں نہیں پوچھتے؟‘‘
’’تم نے یہ بات تو پتے کی کہی ہے۔‘‘ ہم نے پوچھا ’’تم کھل کر بتائو کہ اسی برس کا ہوجانے کے بعد کیا آدمی کی مت ماری جاتی ہے؟‘‘
بڈھے گیدڑ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ اگر میری مت ماری گئی ہوتی تو اپنی سالگرہ میں خود مناتا میری سالگرہ آپ لوگ نہیں منا رہے ہوتے۔‘‘
ہم نے کہا ’’یار یہ بات بھی تم نے پتے کی کہی ہے۔ بار بار پتے کی بات کہنے کیلئے تم اتنے پتے کہاں سے لاتے ہو؟
بڈھے گیدڑ نے کہا۔ ’’مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ یہ بات سائیں قائم علی شاہ سے پوچھو۔ وہ مجھ سے بہت پہلے اسی برس کے ہوچکے تھے۔‘‘
’’یہ بات بھی تم نے پتے کی کہی ہے۔‘‘ ہم سب دوست سوچ میں پڑ گئے کہ کیسے معلوم کریں کہ اسی برس کا ہوجانے کے بعد بڈھے گیدڑ کی مت ماری گئی ہے یا کہ نہیں۔ بڈھے گیدڑ نے اب تک شادی نہیں کی ہے۔ جب بھی ہم نے سبب پوچھا وہ الٹا سیدھا جواب دیکر بات ٹال جاتا تھا۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے ہم نے بڈھے گیدڑ سے پوچھا۔ ’’کیا تم شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘
بڈھے گیدڑ نے بے ساختہ کہہ دیا۔ ’’کبھی نہیں، یہ میری زندگی ہے۔ اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی مرضی سے جینا چاہتا ہوں۔‘‘ ہم میں سے کسی نے پوچھا ۔ ’’اگر کامنی پھر سے تمہاری زندگی میں لوٹ آئے، پھر بھی؟
بڈھا گیدڑ اس ناگہانی سوال کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’کامنی میری زندگی سے گئی کب ہے کہ لوٹ کر آئے۔‘‘
بہت کم لوگوں نے ایسی محبت کی ہوگی۔ جیسی محبت بڈھے گیدڑ نے کامنی سے کی تھی۔ تب بڈھا گیدڑ بڈھا نہیں تھا۔ جوان تھا۔ اس کا نام ابن واجا تھا حالانکہ وہ کسی واجا کا بیٹا نہیں تھا۔ اس کے والد کا نام ابوبکر تھا انکل ابوبکر نے اپنے بیٹے کا نام ابن واجا کیوں رکھا تھا؟ اس کا سبب کوئی نہیں جانتا۔ ابن واجا اور کامنی کراچی یونیورسٹی کے فلاسفی ڈپارٹمنٹ میں ایم اے کررہے تھے۔ دونوں محبت کے فلسفے کی گتھیاں سلجھانے میں لگ رہتے تھے۔ ابن واجا یونیورسٹی کی فٹبال ٹیم میں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلتا تھا، اور اہم میچوں میں پہلا گول اپنی ٹیم کے خلاف کرتا تھا۔ تب ابن واجا سب کیلئے واجا تھا۔ کامنی کیلئے بھی واجا تھا۔ کامنی نے بھی ایک روز اس سے پوچھا تھا کہ تمہارے والد کا نام ابوبکر ہے، پھر تمہارا نام ابن واجا کیوں ہے؟ اس معاملے کو بھی کامنی اور واجا فلسفے کی گتھی سمجھتے تھے۔ پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اسٹوڈنٹ کا نام خالد بن ولید تھا۔ واجا اور کامنی حیران ہوتے رہتے تھے کہ طالب علم کا نام خالد بن ولید کیوں تھا جبکہ اس کے والد کا نام ولید نہیں تھا اس کے والد کا نام طارق بن زیاد تھا۔
کامنی اور واجا کی چاہت کے بارے میں یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ میں چہ میگوئیاں، تجزیے، قصے اور کہانیاں گشت کرتی رہتی تھیں۔ سب کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا، ان دونوں کا آخر کیا بنے گا؟ ایک روز واجا اور کامنی نے ان کو تجسس سے مکتی دلادی دونوں نے کہا ’’ ’’ہمارا وہی بنے گا جو اکبر اور جودھا کا بنا تھا’’
مگر حالات کے ہاتھوں بے بس کامنی جودھا نہ بن سکی۔ واجا اکبر نہ بن سکا ان کے ہاں کسی سلیم نے جنم نہیں لیا۔ کوئی انار کلی تاریخ کے ابواب کی زینت نہیں بنی۔ زندگی کے فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے وہ دونوں نہ جانے کب۔ کہاں اور کیسے جدا ہوگئے؟ کوئی نہیں جانتا۔ کل کا ابن واجا ہمارا آج کا بڈھا گیدڑ ہے جس کی سالگرہ ہم نے پچھلے دنوں منائی تھی۔ اب وہ خیر سے اسی برس کا ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے اسے بیس برس ہوگئے ہیں۔ ایک سندھی کہاوت ہے ’’ اسی مت کھسی‘‘ یعنی اسی برس کا ہوجانے کے بعد آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔ اس کہاوت کو سندھ کے وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ نے بہت حد تک غلط ثابت کردیا ہے۔ ہم دوست چاہتے ہیں کہ بڈھا گیدڑ اس کہاوت کو ہمیشہ کیلئے ٹھکانے لگا دے، ہم نے ایک تدبیر سوچی ہے۔ ہمارے چاچے، مامے، نانے، دادے، دادیاں، بھابھیاں ، خالائیں بچیاںاسمبلیوں میں ایم این اے اور ایم پی اے ہیں۔ ان کے توسط سے بل کے ذریعے ہم پاکستان میں آٹھ دس صوبے بنوائیں گے۔ اس سے ایک طرف تو ملک میں گورنری اور وزیر اعلیٰ بننے کیلئے مارے مارے پھرنے والے بیروزگاروں کو آٹھ دس گورنروں اور آٹھ دس وزیر اعلیٰ کی اسامیاں مل جائیں گی۔
ایم این اوز اور ایم پی اوز کی تعداد ساڑھے سات سو سے بڑھ کر دس ہزار ہوجائے گی۔ دوسری طرف یہ کہ سندھ میں بننے والے تین چار صوبوں میں سے کسی ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہمارا اسی سالہ دوست بڈھا گیدڑ بنے گا اور سندھی کہاوت ’’ اسی کی مت کھسی‘‘ کو غلط ثابت کرکے دکھائے گا اور سائیں قائم علی شاہ کا ریکارڈ توڑ دے گا۔