• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، اپنے وطن کی قومی تاریخ میں گو خود ایک تاریخی حوالہ رہیں گے، اس تحریر کا اختتامی موڑ بھی ان کی پُر جوش دانشورانہ شخصیت کو ہی محیط ہو گا، اس سے پہلے البتہ ان کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی کی تازہ ترین تصنیف "PURIFYING THE LAND OF THE PURE"(اقلیتوں سے پاک سرزمین) پر گفتگو، حسین حقانی کے حوالے کو شاید کہیں زیادہ طاقتور معانی اور قدرو قیمت کا پیمانہ فراہم کر سکے، جیسا کہ اس تصنیف ہی کے سلسلے میں جن لوگوں یا اداروں نے انہیں معلومات اور خیالات کے نئے جہانوں سے آشناء کرایا ان میں بھی انہوں نے اپنے لائف پارٹنر کے محرک کردار کی بلندی بیان کرتے ہوئے اپنی محبت اور اپنے رفیق سفر کی صلاحیت کے تناظر میں ایک نشاط آگیں سے ابلاغ کا بیانیہ اختیار کیا ہے، چنانچہ ’’اقلیتوں سے پاک سرزمین‘‘ نامی اپنی کتابی کاوش کے پس منظر میں فرحؔ کا اپنے شریک حیات کے بارے میں کہنا ہے۔ ’’میری زندگی کے شب و روز میں اہم ترین ساتھ اور رہنمائی میرے شوہر حسین حقانی ہیں، ایک سچے دوست اورمشیر، ایسی ہستی جس کا وجود آپ کی خوش نصیبی کے شجر تلے ہی نصیب ہو سکتا ہے، کائنات میں نصیبوں کی یاوری کے سوا کوئی دوسرا تقاضا آپ کو ایسے انمٹ کرداروں سے فیض یاب نہیں کروا سکتا، وہی نہیں، باپ کی طرح دونوں بچے ھدیٰ اور حماد حقانی بھی زندگی کے نازک اور حساس دوراہوں پر میرے لئے خوشی اور حوصلے کے روشن چراغوں کے روپ میں تاریکیوں کا سینہ چیرتے رہے!‘‘
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ’’پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک اقلیت کے مطالبے پر بننے والا ملک اقلیتوں کو تحفظ نہ دے سکا۔ پاکستان کس کا ہے؟ اس سوال کے جواب کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوتا جا رہا ہے، پہلے جماعت اسلامی اور دائیں بازو کے دیگر حلقوں نے یہ اصرار کیا کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور پھر بتدریج ’’مسلمان‘‘ کا بھی دائرہ تنگ کر دیا گیا، یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کی ریاست اور ملک کے غیر مسلمان شہریوں کے ساتھ اس کا سلوک کیا رہا ہے، یہی موضوع فرح ناز اصفہانی کی نئی کتاب کا ہے۔ ’’پیوریفائنگ دا لینڈ آف پیور‘‘ نامی کتاب تحقیق اور حقائق پر مبنی ہے اور اس میں پاکستان کے قیام سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کے عرصہ پر نظر ڈالی گئی ہے۔ 1947ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے اقلیتی افراد کی تعداد ملک کی آبادی کا 23فیصد تھی، 1971ء میںٹوٹنے کے بعد موجودہ پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی صرف تین فیصد کے قریب ہے، لیکن اس کتاب سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ سب ایک دم سے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع نہیں ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں اسلامی قوانین رائج کئے اور ان کی حکومت کا فرقہ وارانہ اور جہادی گروپوں کے قیام اور ان کی حمایت میں کردار ضرور رہا لیکن اقلیت مخالف سخت گیر رویہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا، اس عمل کی تاریخ کے کئی اہم موڑ تھے۔ اول تو وہ کوشش تھی (جو آج تک جاری ہے) محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کو کسی طرح غائب کر دیا جائے، یہ وہ تقریر تھی جس میں انہوں نے برصغیر کے نئے ملک کے شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ برصغیر کی حالیہ تاریخ سے سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ تفریق کو ختم کرنا ہو گا چاہے یہ فرقہ، مذہب، نسل، ذات یا پھر کسی اور بنیاد پر ہو!!
فرح ناز اصفہانی کی تاریخی تحقیق پر مبنی یہ کتاب، آپ کو کسی مبالغے یا غیر متوازن جذباتیت کے صحرا میں لے جانے کے، واقعاتی اقلیتوں اور کمزور پاکستانی گروہوں کے سلسلے میں واقعاتی تاریخ کے موجود آنگن میں لے جاتی ہے جس میں آپ کچھ دیر کے لئے پُر سکوں قیام کر کے پاکستان میں اقلیتوں اور کمزور گروہوں کے المیے کی قریب قریب 64برس پر مشتمل سچائی کی قلب مطمئنہ کے ساتھ تصدیق کر سکتے ہیں۔
فرح ناز اصفہانی کے تعلیمی، فکری اور نظریاتی پس منظر کی ذہنی رفعت ایسی ہی کتاب کے منظر عام پر لائے جانے کی متقاضی تھی۔ فرح اصفہانی عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کی ہمیشہ سے ایک بلند آہنگ ترجمان رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ انہیں بی بی شہید کی مدبرانہ رفاقت حاصل رہی۔ ایوان صدر میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی میڈیا ایڈوائزر کی حیثیت سے بھی انہیں اقلیتوں اور کمزور پاکستانی گروہوں کی ٹریجڈی کی براہ راست رپورٹس دیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا رہا۔
اور اب ہم لوٹتے ہیں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانیؔ کے تذکرے کی جانب، حسین نے جو ’’گناہ‘‘ کئے یا ’’جو گنایا‘‘ ان ’’گناہوں‘‘ سے پاکستان کی پوری زندگی بھری پڑی ہے، ان گناہنگاروں میں شاید ہی کوئی ایسا عظیم و بہترین پاکستان رہنما شامل نہ رہا ہو جن کی فہرست میں بالآخر پاکستانیوں کے اس سفیر ’’حسین‘‘ کا نام بھی درج کر دیا گیا، بہت پہلے مجھے ایک دوست کی طرف سے ایک سوالنامہ یا جذبات نامہ موصول ہوا تھا، وہ حسین حقانی کی داستان کرب و مظلومیت کا شاید شاہکار اظہاریہ ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
....oحسین حقانیؔ، ایک کامیاب سفیر جس کے 3½سالہ دور سفارت میں پاکستان کو امریکہ سے ’’ایف 16‘‘ طیارے ملے اور ’’کیری لوگر بل‘‘ کے تحت½ 7بلین ڈالر کی خطیر گرانٹ بھی ملی۔
....o’’میمو گیٹ‘‘ ڈرامہ کے بعد اسے مستعفی ہونا پڑا اور ’’میمو گیٹ‘‘ کا معمہ آج تک حل نہیں ہوا۔
....oافتخار چوہدری کے شور و غوغا کے باوجود سپریم کورٹ میں آج تک ’’میمو گیٹ کیس‘‘ کی نہ تو باقاعدگی سے ’’سماعت‘‘ ہوئی ہے اور نہ ہی اس کیس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کوئی فیصلہ دیا ہے۔ 2012سے یہ ’’نام نہاد کیس‘‘ سپریم کورٹ میں Pendingپڑا ہے۔
....oمیمو گیٹ، کی آخری سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے کہا کہ حسین حقانی نہ تو انڈر ٹرائل ہے اور نہ ہی ’’مبینہ ملزم‘‘ اس کے باوجود چوہدری افتخار نے بار بار H.Hکو عدالت میں پیش ہونے کا حکم کیوں دینا شروع کر دیا تھا؟
....oغالباً اس کا مقصد یہ تھا کہ H.Hکو عدالت کا ’’مفرور ملزم‘‘ قرار دے کر میڈیا کو H.Hکی کردار کشی کا موقع فراہم کیا جائے!
H.H....oدلیل سے بات کرتا ہے، وہ ایک عاجز بندہ خدا ہے، وہ کسی کو ڈرا نہیں سکتا مگر بعض لوگ اس کے دلائل سے خوف زدہ ہیں، وہ ’’سول بالادستی‘‘ کا مبلغ ہے، پاکستان بھارت تعلقات کو Normalizeکرنے کا خواہش مند ہے، H.Hکی کتابیں 70ملکوں میں تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہیں۔ مگر کالم کی گنجائش ختم ہوئی، قصہ تو ابھی شروع ہوا تھا، جورہ گیا اس ’’مظلوم‘‘ کے لئے وہ پورا پورا بیان کرنے کی کوشش تو ضرور ہو گی، کامیابی ناکامی اس کے اختیار میں ہے!




.
تازہ ترین