مؤثر کمانڈر کسی ادارے یا فورس کے استحکام اور ترقی کےلیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ایسا کمانڈر جو اپنی فورس کی رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں ادارے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنےکےلیےانفرادی اور اجتماعی طورپر ذمہ داری کےساتھ کام کرنےکی قوت پیداکرنےکی صلاحیت رکھتاہو،حالات کو یکسر بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔
حالانکہ قحط الرجال کےاس دور میں پولیس کےشعبے میں ایسےافسر کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک ایسی مثال بہاؤلپور ریجن میں سامنے آئی جس سے ایک باصلاحیت پولیس افسرنےپورےریجن کی پولیس فورس میںکچھ کر گزرنےکی امنگ اورقوت پیداکردی جس کے نتیجے میں بہاولپور کے تمام اضلاع میں تبدیلی کے آثار نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
احسان صادق جن کےاعمال نامے میں بےشمار کارنامےموجودہیں۔پوری ایمانداری کے ساتھ سچ، حق اور انصاف کے راستے پر چلنے والا یہ پولیس افسر آجکل بہاؤلپورپولیس میںریجنل پولیس افسرہےاورانکی کمانڈ میں بہاؤلپور ضلع کے علاوہ رحیم یار خان اور بہاؤلنگر شامل ہیں۔
بہاؤلپورریجن انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ رحیم یارخان کا ریگستانی علاقہ بھارتی سرحد سے ملتاہے۔اس کے علاوہ رحیم یارخان میں گھنے جنگلات کا سلسلہ سندھ اور بلوچستان کی سرحدوں سے بھی ملتا ہے اور یہ گھنے جنگلات تینوں صوبوں کے جرائم پیشہ گروہوں کی آماجگاہیں ہیں۔ان جرائم پیشہ گروہ جنہوں نے ان صوبوں کے سنگم پر محفوظ آبادیاں قائم کر رکھی ہیں۔
بہاؤلپور ریجن پولیس کے بڑے کارناموں میں ان جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف منظم آپریشن کےبعدمکمل صفائی شامل ہے۔اگرچہ اس آپریشن میں فوج، رینجرز اورحساس اداروں نے بھی بھرپور کرداراداکیالیکن پولیس فورس نے اس آپریشن کو منتقی انجام تک پہنچانےمیں بےمثال جرأت کا مظاہرہ کیا اور قانون نافذ کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اس معرکہ کی کمانڈ احسان صادق کے ذمہ تھی۔
چندماہ قبل معلوم ہواکہ بہاؤلپورریجن میں مصالحتی کمیٹیوں کی طرزپر VICTIM RESPONSE SYSTEMکے نام سے ایک ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جس کے فریقین کے درمیان عام نوعیت کےتنازعات تھانے میں حل کردیے جاتےہیں۔ابتدائی مراحل میںاس نظام کو متعارف کرانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرتےہوئےفریقین سےسازباز شروع کر دی اور مصالحت میں رشوت کا عنصر نمایاں طور پر دکھائی دینے لگا لیکن ریجنل کمانڈ نے کرپٹ پولیس اہلکاروںکوعلیحدہ کرکےانکےخلاف محکمانہ کاروائیاںشروع کر دیں اوراس دواران 13پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا۔تاہم رفتہ رفتہ اس نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں اور عوام اس نظام کی افادیت کو تسلیم کر لیا۔
ابتدامیںتینوںاضلاع کے30 تھانوں میں VICTIM RESPONSE OFFICERS مقرر کیے گئے اور ان کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھی گئی۔بہتر نتائج اورعوامی مقبولیت کومدنظر رکھتے ہوئے ریجن کے تمام72تھانوں میں VRO's مقرر کردیے گئے۔ ریکارڈ نےبتایاکہ گزشتہ 6ماہ کےدوران 30440 تنازعات طے کرائے گئے اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ مقدمہ بازی کے عذاب سے بچ گئے۔
اس نظام کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی کیونکہ پولیس کی توجہ روزمرہ کی الجھنوں سے ہٹ کر جرائم کے کنٹرول پرمبذول ہوگئی۔
جرائم میں کمی کے ساتھ ساتھ بعض حیران کن باتیں سامنے آتی ہیں۔وہ یہ کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے گاڑی چوری کی وارداتیں تقریباً ختم ہوچکی ہیں اس کی وجوہات اگرچہ حساس اداروں کی کارکردگی بھی تھی۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک حساس ادارے کی سرکاری گاڑی چند ہفتے قبل چوری ہوئی توانہوں نے پولیس کی معاونت سے ریجن میں سرگرم عمل کارچوروں کا صفایا کر دیا اور گزشتہ کئی ماہ کے دوران چوری ہونے والی گاڑیاں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے برآمد کرکے عوام کے حوالے کر دیں۔
کاش پورےملک کی پولیس فورس اسی طرح اہل افسروں کی کمانڈمیںایک قومی فورس کے طور پر اصلاح کا راستہ اختیار کر لے۔