• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدرت خداوندی کا کھیل ہے اور ’’گلوبل وارمنگ‘‘ کے اثرات بھی ہوسکتے ہیں کہ گرمی کا موسم تو چلا گیا مگر سردیاں پوری طرح آتی دکھائی نہیں دیتیں ورنہ دسمبر کے ابتدائی دنوں میں اچھی خاصی سردی ہو جایا کرتی ہے۔ موسمی تبدیلی بہت زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے۔ چند سال پہلے دسمبر بلکہ نومبر کے دنوں میں بھی سویٹرر، کوٹ، فل کوٹ، دستانے، مفلر اور گرم اونی ٹوپیاں استعمال میں آنی شروع ہو جاتی تھیں مگر اس سال نومبر دسمبر صرف سویٹر اور واسکٹ کے اندر ہی گزر رہے ہیں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دسمبر کے آخری دنوں میں سردی محسوس کی جائے گی جو شاید جنوری اور فروری تک چلی جائے گی۔سوچا جاسکتا ہے اور سوچا جا بھی رہا ہوگا کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے۔ موسمی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ انسانی لباس کی تراش خراش اور فیشن کے تقاضوں کو بھی بہت حد تک تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے یا موسمی تبدیل کے زیر اثر ہماری فصلوں کی کاشت وغیرہ میں بھی کچھ تبدیلیاں آجائیں گی۔ چند سال پہلے عرب ملکوں نے تیل کی سپلائی میں تبدیلی کو جنم دیا تھا تو یورپ اوردیگر مغربی ملکوں میں عورتوں نے منی سکرٹ کا پہناوا فل سکرٹ میں تبدیل کردیا تھا اور ڈینگی مچھر نے پاکستان کی خواتین کو بغیر آستین لباس کو فل آستینوں والے لباس کی طرف توجہ دینے پر مجبور کردیا تھا۔ اس نوعیت کی اور بہت سی تبدیلیاں گلوبل وارمنگ کے زیر اثر پاکستان میں رواج پا سکتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد گلوبل وارمنگ ہمارے شہروں کے گھروں کی طرز تعمیر کو بھی تبدیل کردے تعمیر ہونے والے مکانوں کے نقشے گلوبل وارمنگ سے آنے والی تبدیلیاں کا خاص طور پر خیال رکھنے والے ہوں۔اس وقت عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاکستانی لوگ یورپ اور دیگر ٹھنڈے ملکوں کے گھروں کے نقشے سامنے رکھ کر اپنے گھروں کے نقشے بنائیں جن میں گھروں کی چھت پر گرنے والی برف کا بھی خیال رکھتے ہیں اور دھوپ کی کمی کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑے بڑے روشن دان تعمیر کرواتے ہیں اورپھر ان روشن دانوں کی چمک سے بچنے کے لئے ان پر بھاری پردے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مستقبل کے لوگ بھی اس نوعیت کی اندھی تقلید کے ذریعے سردیوں کی شدت میں زندگی گزارنے والے یورپی باشندوں کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے جب کہ پاکستان میں گلوبل وارمنگ کے ذریعے سردی کے موسم کا وجود بھی مشکوک ہو چکا ہوگا۔ ان حالات میں یورپ کی نقل کرنا ایسے ہی ہوگا جیسے افریقہ اور مشرق کے صحرائی علاقوں میں سردی کی شدت سے ٹھٹھر جانے والے لوگوں کی نقل کی جارہی ہے اور وطن عزیز میں رہنے والے اپنے وطن کے موسم اور ہوائوں سے قطعی لاپرواہ اور ناآشنا قسم کے طرز تعمیر کو اپنانے کی کوشش کررہے ہوں۔ غالباً اس لئے کہا جاتا ہے کہ نقل کو بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ عقل کو استعمال کئے بغیر نقل بھی نہیں کی جاسکتی۔

.
تازہ ترین