• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرسمس فادر اور کرسمس ٹری تحریر:واٹسن سلیم گِل…ایمسٹرڈیم

گزشتہ ہفتے جنگ لندن میں کرسمس فادر کے حوالے سے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں ماہرین نفسیات اور سوشل سٹڈ یز کے ماہرین نے کرسمس فادر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ سانتا کلاز کے جھوٹے کردار کی وجہ سے ماں باپ اور بچوں کے تعلق کو نقصان پہنچتا ہے ۔ان ماہرین کے خیال میں سانتا کلاز کاروپ دھارے لوگ بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں اس طرح کی کہانیاں بچوں کے اعتماد کو کم کرتی ہیں اور اخلاقی اعتبار سے بھی مشکوک رہتی ہیں ۔ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے لگا کہ کیا ماں باپ کا اپنے بچوں سے تعلق اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس طرح کے افسانوی کردار ان کے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور کیاہمارے معاشرے میں صرف سانتا کلاز ہی واحد افسانوی کردار ہے اور کیا صرف اسی کردار سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔میں کرسمس فادر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ ہی کہوں گا کہ اس کردار کا مسیحی مذہب سے کوئ تعلق نہیں ہے اس کردار کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔ایک روایت ہے کہ سانتا کلاز دراصل ڈچ کردار سینٹرکلاس کی کوکھ سے پیدا ہواہے اور سینٹرکلاس چوتھی صدی سے تعلق رکھنے والے ایک یونانی کیتھولک بشپ سینٹ نکولاز کی شخصیت سے مرعوب ہو کر وجود میں آیا ہے ۔اگر آپ سانتا کلاز کو ایک طرف رکھ کر صرف اس کے کردار کے اعمال پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں ایک ایسا شخص نظر آئے گا جو کرسمس کے موقع پر بچوں میں تحائف تقسیم کرتا ہے اس کے علاوہ یہ کردار ایک خاموش کردار ہے۔آج کل سانتا کلاز 6 دسمبر سے یورپ کے دیگر ممالک میں مختلف مقامات پر بچوں میں بغیر رنگ، نسل اور مذہب کے تحائف تقسیم کرتا ہے۔ زیادہ تر تحائف بچوں کے ماں باپ خود خرید کر دیتے ہیں ، مگر سکولوں کے بچے اور کچھ سماجی تنظیمیں بہت سے تحائف غریب ممالک کے بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔ سینٹ نکولاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ وہ خود سامنے نہ آئیں۔ اسی طرح سانتا کلاز بھی ان بچوں میں تحائف تقسیم کرتے تھے جن کے پاس کرسمس کے دن کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ یہ تحائف خاص طور پر رات کے وقت پہنچاتے تھے۔ جب بچے سو رہے ہوتے تھے۔ پھر بھی ان غریب بچوں میں احساس کمتری نہ ہو اس لیے وہ چہرے پر داڑھی لگا کر اپنا گیٹ اپ تبدیل کر کے رات کے وقت تحائف ان بچوں کے ماں باپ کے حوالے کرتا تھا اور ماں باپ اپنے بچوں کو بتاتے تھے کہ سانتا کلاز ہرنوں کی بگی پر سوار ہو کر آیا اور ان کے لئے تحفے چھوڑ گیا اس واقعہ کے بعد بہت سے اچھے لوگوں نے غریب بچوں کی مدد کرنے کا یہ انوکھا طریقہ اپنا لیا اس سے غریبوں کی مدد بھی ہو جاتی اور ان کی عزت و نفس بھی مجروع ہونی سے بچ جاتی تھی ۔میرا ان ماہرین سے سوال ہے کہ سانتا کلاز کے علاوہ بھی بہت سے افسانوی کردار ہمارے درمیان میں موجود ہیں ۔ کیا سپر مین ، بیٹ مین اور ٹارزن جیسے کرداروں سے بچوں کے اخلاق پر اثر نہیں پڑتا کیا ماں باپ خود اس طرح کے جھوٹے کردار بچوں کو کھلونوں کی صورت میں خرید کر نہیںدیتے ہیں اور ان کرداروں کی فلمیں نہیںدکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پری ہے جو بچوں کے دانت ٹوٹنے کہ بعد ان کے تکیے کے نیچے پیسے چھوڑ جاتی ہے۔ میری چھوٹی بیٹی سارہ کے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے تو وہ ہر دانت ٹوٹنے کے بعد مجھے یاد کراتی تھی کہ دانت والی پری رات کو پیسے چھوڑ کر جائے گی۔ ایک بار میرے پاس چھوٹے پیسے نہیں تھے تو میں نے صبح اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ پری آئی تھی مگراس کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے۔ تو میری بیٹی نے کہا کہ میں اس پری کو فون کر دوں کہ کل تک اس کے پاس پیسے ہونے چاہئیں ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ بچوں کو آہستہ آہستہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہےبچے تو بچے ہیں ساؤتھ ایشیا میں کتنے بالغ ہیں جو ہیر رانجھا کو یا رومیو جولیٹ کو افسانوی کردار سمجھنے کے بجائے حقیقت سمجھتے ہیں۔اسی طرح ہمارے کچھ نام نہاد پادری کرسمس ٹری کے حوالے سے انتہائی بونگے اور غیر منطقی دلائل دے کر کرسمس ٹری کو بت پرستی قرار دیتے ہیں ۔ دنیا کے تمام مسیحی بشمول پاکستانی مسیحی کرسمس ٹری کو محض ایک سجاوٹ کی چیز کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ۔میرے گھر میں کرسمس ٹری کا ڈبہ سارا سال سٹور میں پڑا رہتا ہے دسمبر کے مہینے میں نکال کر جھاڑ پونچھ کر سجاتا ہوں پھرسٹور میں پھینک دیتا ہوں ۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی پاسٹر صاحب جو میرے دوست بھی ہیں کرسمس ٹری کو پوجنے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم جب کرسمس ٹری کو سجا کر اس کے نیچے کرسمس کے تحائف رکھتے ہیں اور جب ہم کرسمس ٹری کے نیچے رکھے تحائف کو اٹھاتے ہیں تو ہمارا وہ جھکنا دراصل کرسمس ٹری کے آگے جھکنا ہوتا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہو گئی یعنی دن میں آپ اگر کسی بھی چیز کے لیے غیرارادی طور پر جھکتے ہیں تو مطلب آپ اپنے سامنے والی دیوار ، ٹیبل ،کرسی یا شخص کو سجدہ کرتے ہیں ۔ بھرے بازار میں آپ کے ہاتھ سے کوئی چیز گری آپ نے جھک کر وہ چیز زمین سے اٹھائی تو آپ ایماندار سے کفار میں شامل ہو گئے۔ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہم ہر وقت ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ ہمارا ایمان خراب نہ ہو جائے۔ کوئی پوچھتا ہے کہ کیا حال ہے میں کہتا ہوں الحمدللہ تو کہتے ہیں کہ "بھائی کیا مسلمان ہو گئے ہو؟" ۔ کوئی پوچھتا ہے کہ پسندیدہ تاریخی کردار کون سا ہے میں کہتا ہوں سدھارت گوتم بدھا تو کہتے ہیں کہ "بھائی کیا بدھسٹ ہوگیا ہے؟"۔ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش ایسے ماحول میں کرنی چاہئے کہ ان سے ہمارا دوستی کا رشتہ برقرار رہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ وسیع النظری کبھی بھی آپ کے ایمان کو کمزور نہیں بناتی ۔



.
تازہ ترین