• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (تبصرہ:مظہر عباس)جب امریکی صدر باراک اوباما نے بدنام زمانہ ابو غریب اور گوانٹاموبے جیل بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس کا پوری دُنیا میں خیرمقدم ہوا۔ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوتے تو امریکا ایک مثبت تاثر بنتا اور وہ صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کرتے ہوئے وہ ایک تاریخ مرتب کر سکتے تھے۔ صدر اوباما گوانٹاناموبے اور ابوغریب کی جیل اس لئے بند کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے باعث بدنامی امریکا کے حصے میں آئی۔ نائن الیون کے بعد جو 80 فیصد اسیروں نے وہاں برسوں گزارے وہ بے گناہ نکلے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی باری ہے، وہ عراق جنگ کے نقّاد رہے۔ ابوغریب جیل تو گوانٹاناموبے سے بھی زیادہ بدتر رہی، جہاں قیدیوں کو بدترین جسمانی ایذا رسانی بلکہ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ جب برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر اور عراق میں کام کرنے والے ایک امریکی جنرل نے ’’غلطی‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے اظہار افسوس کیا۔ اس وقت جو کردار اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سابق صدر پرویز مشرف نے ادا کیا، اس پر بھی اہم سوال اُٹھتا ہے جنہوں نے 600 مبینہ مشتبہ افراد کو امریکا کے حوالے کیا جنہوں نے کسی مقدمے کے بغیر کئی برس گوانٹاناموبے میں قید کاٹی۔اب ان کے اس اپنے کئے پر یہ معذرت کرنے کا وقت نہیں ہے؟ اس جیل سے واپس آنے والوں میں سے کچھ کی کہانیاں بڑی ہولناک ہیں۔ گوانٹاناموبے کے صدمے نے ان کی اپنی معمول کی زند گیا ں چھین لی ہیں۔ ڈرائونے خواب اب بھی ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس ایک سے کہیں زیادہ معذرتوں کی ضرورت ہے۔ ٹونی بلیئر اور امریکی کمانڈر نے عراق جنگ کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہاں تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہلاکت خیز ہتھیار ملے ہی نہیں، بلکہ اس جنگ کے مابعد اثرات زیادہ  مہلک اورہلاکت خیز ثابت ہوئے اور آج بھی دُنیا اس کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پرویز مشرف اپنے فیصلے کا آج بھی فخریہ انداز میں دفاع کرتے ہیں۔ اپنے اقدامات کے بدلے میں انہیں ڈالرز تو ملے لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر ایک بھی بے گناہ نے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتی ہے تو اس کے ذمہ دار ان کی حوالگی کا مطالبہ اور انہیں حوالے کرنے والے ہیں۔ لاپتہ افراد کے سیکڑوں مقدمات ہیں جن میں سے کچھ گوانٹاناموبے پہنچائے گئے جبکہ اب بھی جو لاپتہ ہیں ان میں سے ایک آمنہ جنجوعہ کے شوہر مسعود جنجوعہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کھربوں ڈالرز خرچ کئے جانے کے باوجود اس کے تباہ کن اثرات ہی مرتب ہوئے۔ آج دُنیا زیادہ غیرمحفوظ ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام تباہ ہوگئے۔ 10 لاکھ سے زائد انسان تہہ تیغ کر دیئے گئے، کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ایک القاعدہ کے بجائے اس سے بڑھ کر سفاک دہشت گرد گروپ اُبھر کر سامنے آ گئے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ایسے ہی کیسز میں سے ایک ہے جو متنازع ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتا ہے۔
تازہ ترین