• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان جو اسلام کے نام پر اسلام کے لئے قائم ہونے والا دنیا کے نقشے پر واحد ملک ہے اس کی شناخت و ساخت ہی اسلام ہے اس اسلامی مملکت کے صوبہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی نے اسلام دشمنی کا ایک ایسا قانون متفقہ طور پر پاس کیا ہے کہ تمام اہل وطن تمام اہل اسلام دانتوں میں انگلیاں دے رہے ہیں وطن عزیز کی ایک قانون ساز اسمبلی نے وہ کام کردیا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے سندھ اسمبلی کے منظور کردہ اس کالے قانون کے مطابق سندھ میں کسی غیر مسلم خصوصاً ہندوئوں کا 18 سال سے کم عمری میں اسلام قبول کرنا معتبر نہیں ہوگا اور 18 سال سے بڑی عمر کے شخص یا شخصیت کے لئے بھی یہ ضروری ہوگا کہ وہ اگر اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہوجاتا ہے تو اسے 21 روز تک ہندو مجلس ذاتی نگہداشت میں قید رکھے گی تاکہ وہ یہ یقین حاصل کرسکے کہ متعلقہ فرد نے اسلام زور زبردستی سےتو قبول نہیں کیا اس قانون کے تحت کسی ہندو یا غیر مسلم کو زبردستی کلمہ پڑھانے اور شادی کرانے والے اشخاص میں نکاح خواں کو سات سال اور سہولت کار کو پانچ سال کی سزا دی جاسکے گی۔
سندھ اسمبلی نے جو کبھی قومی اسمبلی پاکستان بھی رہ چکی ہے یہ ایسا گھنائونا کارنامہ انجام دیا کہ اہل سندھ کے مسلمانوں کے سر شرم و ندامت سے جھک گئے ہیں پیپلز پارٹی جو اپنی ابتدا سے ہی سوشل ازم کی حامی ہے اس نے اپنی تاسیس کے موقع پر اپنی جماعت کو سوشل ازم سے منسلک کردیا تھا اس کے لئے بہت سی تاویلات بھی پیش کی تھیں سندھ کے گورنر بننے والے میر رسول بخش تالپور نے تو سوشل ازم کی حمایت میں قرآن کریم تک کا استعمال کردیا تھا ارکان سندھ اسمبلی کیا اپنے اس اقدام سے خود کو بھارت نواز ثابت کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں خصوصاً سندھ بھر میں آباد ہندو جن میں اکثر و بیشتر (سب نہیں) بھارتی ایجنسیوں کی سازشوں کا شکار بن کر اپنے ساتھ زیادتی کی دہائی دیتے رہتے ہیں اور مسلم آبادی پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں کہ ان پر بڑا ظلم ہو رہا ہے ان کے بچوں کو زبردستی مسلمان بنایا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے سندھ میں ہندو اکثریتی آبادی کے علاقوں میں بھی اور دیگر علاقوں میں جو ہندو آباد ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں وہ مسلم معاشرے میں رہ رہے ہیں مسلمانوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے جو بچے تعلیم حاصل کر کے جواں ہو رہے ہیں وہ اپنے مسلم دوست احباب اور محلہ داروں کے پر خلوص رویوں اور اسلام کی حقانی تعلیمات سے متاثر ہو کر یا کچھ غیر تعلیم یافتہ افراد اپنے ہندو بھائیوں کے ہاتھوں ظلم زیادتی کا شکار ہو کر بھوک و افلاس کا شکار ہو کر اور مسلمانوں کی ہمدردی اور اخلاص اور تعاون سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں کہیں کسی سے کوئی زور زبردستی نہیں کی جاتی، یہاں تک کہ جو ہندو مسلمان ہونا چاہتا ہے جس عالم دین کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتا ہے وہ عالم دین یا وہ شخص اس سے واضح طور پر دریافت کرتا ہے کہ وہ اسلام کسی زور زبردستی سے تو قبول نہیں کر رہا کسی قسم کے دبائو کے تحت تو اسلام میں داخل نہیں ہورہا، تب ہی وہ اسلام قبول کرنے والے کو کلمہ طیبہ پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کرتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے صرف چند ہی اقلیتی نمائندے ہیں اس کے باوجود سندھ اسمبلی نے ایک ہندو رکن کے پیش کیے گئے بل کو منظور کر کے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ملیامیٹ کردیا ہے، سندھ اسمبلی بھارتی ایجنسی کی سازش کا شکار ہوگئی ہے اس بل کی حمایت پاکستان میں وہی این جی اوز کر رہی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے کم اور بھارت اسرائیل اور دیگر غیر مسلم ممالک سے زیادہ ہے جن کا ایجنڈا ہی پاکستان کی مسلم شناخت کو تہس نہس کرنا ہے پاکستان کو بے چینی بے کلی کا شکار بنانا ہے۔ انہیں اسی کام کے لئے بے دریغ فنڈ فراہم کیے جاتے ہیں پیپلز پارٹی کن قوتوں کو خوش کرنا چاہ رہی ہے اور کیوں؟
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آخر ہندو اقلیت کو یہ بل پیش کر کے اسے منظور کرانے کی ضرورت کیوں پڑی کیونکہ ہندو فیملیوں میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں غیر شادی شدہ بیٹھی ہیں ان کے والدین صرف ان کی شادی اس لئے نہیں کرتے کہ کہیں انہیں اپنی ذات برادری میں کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا یا پھر لڑکے والے غیر معمولی جہیز طلب کرتے ہیں جو اکثر والدین کے لئے ممکن نہیں ہوتا یوں مجبوراً بچے بچیاں اپنے والدین کی انا اور غیرت کے باعث ساری زندگی یوں ہی گزار دیتے ہیں چند ایک جو حوصلہ ہمت کرتے ہیں یا انہیں اپنے کسی مسلمان ساتھی سے محبت ہوجاتی ہے وہ اسے اپنانے کے لئے یا اپنی قوم برادری کے نا مناسب رویوں سے دل برداشتہ ہو کر اپنا مذہب اپنی مرضی اپنے اختیار سے بدل لیتا ہے جسے ہندو برادری برداشت نہیں کرتی اور واویلا مچانے لگتی ہے اور بھارتی تنظیموں سے اور بھارت نواز این جی اوز سے فریاد کرنے لگتی ہے یوں پاکستان دشمن قوتوں کو موقع مل جاتا ہے وہ اس معاملے کو جی جان سے اچھالتی ہیں تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو داغدار کیا جائے اور اسلام کے خلاف اپنی مذموم مہم جوئی کے ذریعے کلیسا اور بھارتی ایجنسیوں سے زیادہ سے زیادہ فنڈز حاصل کیے جاسکیں آج یہ کالا قانون اسلام کے خلاف پیپلز پارٹی کے آئین پاکستان اور خود اپنے خلاف ایک زندہ ثبوت ہے، اب جبکہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت آنے والے انتخابات کے لئے سر گرم عمل ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسہ جو آج پارٹی کے سربراہ ہیں وہ بھی اپنے قول و فعل سے کسی مسلم ملک کی سیاسی جماعت کے نمائندے کا اظہار نہیں کر رہے اور آنے والے انتخابات جس کے وہ ابھی سے خواب دیکھ رہے ہیں جس کا اظہار وہ اپنی جماعت کے یوم تاسیس کے موقع پر برملا کرچکے ہیں کہ آئندہ وہ خود وزیر اعظم پاکستان اور ان کے والد گرامی صدر مملکت ہوں گے یقیناً اس بل کے پاس کرنے سے ان کو اسلام دشمن قوتوں کی حمایت تو حاصل ہوسکے گی لیکن انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی مسلم ہے ان کے ووٹروں کی اکثریت مسلم آبادی پر محیط ہے کیا وہ اپنی جماعت کو اسلام سے دور لے جا کر اس اسلامی فلاحی ریاست کی حکمرانی حاصل کرسکیں گے۔

.
تازہ ترین