• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداکار حبیب بنام وزیراعظم یوسف رضا گیلانی!,,,روزن دیوار سے…عطاء الحق قاسمی

نئی نسل اداکار حبیب کے نام اور کام سے واقف نہیں لیکن میری نسل کے لوگ ان کی فلمیں بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس امر پر حیران بھی ہوئے تھے کہ انسانی فلموں کا ہیرو ہو، ہینڈسم بھی ہو، مواقع بھی میسر ہوں مگر اس کے باوجود اس کی ذات کے ساتھ کوئی اسکینڈل وابستہ نہ ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اپنے وقت کے اسی مقبول اداکار کا دامن اس نوع کی تمام آلائشوں سے پاک رہا۔ اداکار حبیب کی صرف یہی ”انفرادیت“ نہیں تھی بلکہ ایک ”انفرادیت“ یہ بھی تھی کہ فلم انڈسٹری میں جہلاکی ایک بھیڑ تھی، جس میں اداکار حبیب اور چند دوسرے پڑھے لکھے لوگ پھنسے ہوئے تھے۔
گزشتہ روز میرے ادبی جریدے ”معاصر“ کا دروازہ کھلا اور ایک دراز قد، خوبرو مگر ڈھلتی عمر کا شخص اندر داخل ہوا، میرے لئے یہ شخص خوشگوار حیرت لے کر آیا تھا کیونکہ یہ وہی اداکار حبیب تھا جو میرے ناسٹیلجیا کا حصہ تھا، ہم نے کچھ دیر ایک دوسرے سے چائے کے کپ پر گپ شپ کی۔ پھر میں نے پوچھا ”کیسے آنا ہوا؟“ اس پر حبیب نے اپنی بپتا سنائی اور تفصیل سے بتایا کہ وزارت ترقیٴ خواتین نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان سے دو فلمیں بنوائیں، اونے پونے داموں خریدیں، بعد میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو علیحدہ پرنٹ بھی بنوائے، جس کی ادائیگی نہیں کی، یہ معاہدہ پانچ برس کا تھا، اب بارہ برس ہو چکے ہیں اور معاہدہ رینیو کئے بغیر یہ فلمیں چلائی جا رہی ہیں۔ حبیب کے علاوہ خود مجھے بھی اس امر پر سخت حیرت تھی کہ اس جیسے مصروف و مقبول شخص کے احتجاج پر بھی کسی نے کان نہیں دھرا بلکہ حکومتی عمائدین نے ان کے کسی خط کا جواب تک نہیں دیا، اب وہ ایک اور کوشش کے طور پر میرے کالم کے لئے ایک خط لکھ کر لائے تھے، انہیں یہ حسن ظن تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی میرے کالم میں اس خط کی اشاعت کے بعد انہیں انصاف ضرور دلائیں گے۔ خود میرا اپنا بھی یہی خیال ہے چنانچہ یہ خط ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ایک شریف النفس انسان کو اس کا حق ضرور دلائیں گے۔ خط ملاحظہ فرمائیں۔
محترم مکرم عالی جناب قاسمی صاحب!
السلام علیکم: آپ کے لئے دعا گو ہوں۔
آپ بہتر جانتے ہیں کہ میں نے 50 سال دن رات قوم کی خدمت کی۔ 16 کروڑ پاکستانی مجھے شناخت کرتے ہیں۔ احترام کرتے ہیں۔ محبت کرتے ہیں۔ قومی اثاثہ کہتے ہیں Legend کہتے ہیں۔ میرے ساتھ انتہائی زیادتی ہوئی اور کوئی پُرسان حال نہیں۔
میں نے سندھی اور پنجابی زبان میں رنگین فلمیں باغی کے نام سے بنائیں وزارت ترقی خواتین۔ اسلام آباد نے اپنی آگہی اور بیداری مہم کے لئے ان فلموں کو منتخب کر لیا۔ اصل لاگت نہ دی اور مجھے حکومتی دباؤ ڈال کر Ban کرنے کی دھمکیاں دے کر ڈرا کر ہراساں کر کے ایک معاہدہ 3/ ستمبر 96 دستخط کروا لئے۔ میں پڑھا لکھا فنکار ہوں لہٰذا ڈرپوک ہوں۔ پھر بھی میں نے زبردست احتجاج کیا تو مجھ سے کہا گیا کہ 5 سال بعد پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے قیمت سے متعلق سرٹیفکیٹ کے مطابق لاگت کی ادائیگی کر دی جائے گی۔ کیونکہ فلمیں 5 سال چاروں صوبوں کے گاؤں گاؤں Open میں سکرین لگا کر چلائی جانی تھیں۔ کرتا کیا نہ کرتا۔ خاموش ہو گیا۔ فلمیں چاروں صوبوں میں چلیں اخبارات نے زبردست پذیرائی کی۔ امید سے بھی زیادہ نتائج ملے۔ موثر نتائج ملے۔
وزارت نے قریب ڈیڑھ سال بعد غیر معاہداتی، غیر قانونی مجھ سے دو پرنٹ مانگ لئے گئے۔ میں نے ادھار اٹھا کر پرنٹ بنوائے اور وزارت کے حوالے کر دیئے اور یوں وزارت مذکور نے اپنی ہی ایگریمنٹ 3/ ستمبر 96 کو Violate کیا۔ قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ میں نے پاکستان فلم آرٹسٹ ایسوسی ایشن کا قیمت سے متعلق سرٹیفکیٹ پیش کیا جس میں ایک زبان کی ایک فلم کی قیمت 80 لاکھ بتائی گئی۔
5 سال گزرنے پر جب میں نے وزارت سے رابطہ کیا تو وزارت مکر گئی اور موقف اختیار کیا کہ معاہدہ 3/ ستمبر 96 پر عملدرآمد ہو گیا ہے۔ اگرچہ چاہئے یہ تھا کہ مجھے خط لکھ کر معاہدہ پر عملدرآمد کا کہا جاتا اور میرا میٹریل واپس کر دیا جاتا۔ ایسا کچھ نہ کیا گیا اور مزید سات سال ہو گئے کہ کسی معاہدہ کے بغیر غیر قانونی میری فلمیں چلائی جا رہی ہیں۔ پرنٹس وزارت کے قبضے میں ہیں۔ بے شمار خط عزت مآب صدر پاکستان کو لکھے کوئی جواب نہ آیا وزیراعظم صاحب کو اپنی Petition بھیجی۔ وزیراعظم صاحب نے وزارت سے مفصل جواب مانگا۔ جو وزارت نے پیش کر دیا دونوں کا موقف وزیراعظم صاحب کے پاس ہے صرف فیصلہ ہونا ہے مگر کوئی جواب نہ آیا۔ بڑا عرصہ گزر چکا ہے۔ بے شمار خط وزیراعظم صاحب کو لکھے کہ مجھے ملاقات کا وقت دیا جائے کہ میں اپنا موقف پیش کر سکوں۔ کوئی جواب نہ آیا۔
41 (نو منتخب) ایم پی اے صاحبان نے دونوں پارٹیوں کا تحریری موقف Examine کیا۔ غور کیا۔ بحث کی اور فیصلہ کر کے عزت مآب صدر پاکستان اور عزت مآب وزیراعظم پاکستان کو بھیجا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ تھک چکا ہوں۔ ساری پونجی لگا کر فلمیں بنائیں۔ اب نان شبینہ کا محتاج ہو گیا ہوں بلکہ کر دیا گیا ہوں۔ بہت پریشان ہوں۔ کس سے منصفی مانگوں۔ سانسوں کی ڈوری ٹوٹ گئی پھر انصاف ملا تو میرے کس کام کا؟ مدد فرمایئے فلم لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں بنتی ہے۔
والسلام آپ کا حبیب

تازہ ترین