ہندوستان کی ناول نگار دانشور ارون دھتی رائے بمبئی میں نو نومبر کی دہشت گردی کی واردات سے ابھرنے والے اشتعال کو قطعی طور پر نامناسب قرار دیتے ہوئے اسے ”ہندوستان کا گیارہ ستمبر“ قرار دینے والوں کی مذمت کرتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں نو اور گیارہ میں فرق ہوتا ہے۔ نومبر بھی ستمبر نہیں ہوتا، پاکستان بھی افغانستان نہیں ہے اور ہندوستان بھی امریکہ نہیں ہے اور سال 2008ء بھی سال 2001ء سے آٹھ سالوں کے فاصلے پر ہے۔ تمام تر الزامات کا طومار پاکستان پر باندھ دینے والے ہندوستانیوں کو خود اپنے کردار اور کارگزاریوں پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ دوسروں کے چوہے نکالنے والوں کو اپنے اندر کے ہاتھیوں کی جانب بھی دیکھنا چاہئے۔
ایک تفصیلی مضمون میں عالمی شہرت رکھنے والی ارودن دھتی رائے کہتی ہیں کہ بمبئی واردات کے اشتعال میں ہم اپنی تمام المیہ وارداتوں کو بھول چکے ہیں جن میں کشمیری اور گجراتی مسلمانوں کا خون بھی شامل ہے۔ صرف یہی بات نہیں کہ بمبئی میں ہونے والی واردات احمد آباد، بنگلور، دہلی، گوہاٹی ، جے پور اور مالیگاؤں میں ہونے والی وارداتوں کے بعد تازہ ترین واردات ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ دیگر تمام شہروں میں غریبوں، عام لوگوں اور خاک نشینوں کا خون بہایا گیا تھا جبکہ بمبئی کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں بہت زیادہ قیمتی، خصوصی طور پر مہنگے اور گوری رنگت کے لوگوں کا خون بہایا گیا ہے جو کہ ناقابل برداشت ہے۔ اگر یہ بات درست ہے کہ بمبئی پولیس نے اس واردات کے سلسلے میں کچھ ہندوستانی باشندوں کو بھی گرفتار کیا ہے جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی شامل ہیں تو پھر ہمارے ہندوستان کے اندر بھی بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
ہندوستان کے چوبیس گھنٹے چلنے والے 67 ٹی وی چینلوں نے بمبئی کے سانحہ پر رواں تبصرے کرتے ہوئے کہیں بھی یہ نہیں بتایا کہ اس واردات میں کچھ عام لوگوں کا بھی خون ہوا ہے۔ صرف ریلوے سٹیشن اور پبلک ہسپتال میں ماری جانے والی پبلک کا تذکرہ کیا گیا ہو گا مگر زیادہ تر توجہ چمکدارہندوستان کے چمکدار لوگوں پر ہی مرکوز رہی۔ مرمریں راستوں اور کرسٹل بال رومز کے اندر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کا رونا رویا جاتا رہا۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل کے ایک کھانے کے کمرے کا نام ”کندھار“ بھی ہے جس کے اشتہار میں ”پزا“ کی تصویر کے ساتھ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو بھوک تو نہیں لگی؟ اور یہ محض اتفاق کی بات نہیں ہے کہ عالمی سطح پر بھوکے لوگوں کے ملکوں کی فہرست میں چمکتا ہوا خوبصورت ہندوستان سوڈان اور صومالیہ جیسے غریب ملکوں سے بھی نیچے ہے اور یہ بھوک بمبئی میں بھی اتنی ہی شدت سے محسوس کی جاتی ہے جتنی شدت سے کشمیر کے کسی گاؤں میں محسوس ہوتی ہوگی۔
ارون دھتی رائے کے پورے مضمون کے اردو ترجمے کی یہاں گنجائش نہیں ہو گی مگر انہوں نے اپنی تحریر میں جو معلومات درج کی ہیں وہ آسانی سے بیان کی جا سکتی ہیں۔ ارون دھتی کے مطابق 1990ء میں لشکر طیبہ کی بنیاد رکھنے والے حافظ سعید کہتے ہیں کہ وہ خودکش حملوں کے حق میں ہیں۔ یہودیوں، شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں اور جمہوریت پسندوں کو پسند نہیں کرتے اور پوری دنیا پر اسلام نافذ کرنے کے لئے جہاد کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک ہندوستان سالم ہے امن قائم نہیں ہو سکتا، ہندوؤں کو قتل کرنا چاہئے جیسے ہندو کشمیری مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں“ اور احمد آباد کے بابو بجرنگ فرماتے ہیں کہ ”وہ دہشت گرد نہیں جمہوریت پسند ہیں“ مگر 2002ء میں گجرات کے قتل عام میں ان کا سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ انہوں نے کیمرے کے سامنے یہ فرمانے کی جرأت بھی کی کہ ہم نے مسلمانوں کی کسی ایک دکان کو بھی نہیں چھوڑا سب کو آگ لگا دی۔ ہم نے مسلمانوں کو مارا، قتل کیا اور جلا دیا، ہم نے مسلمانوں کو اس لئے جلایا کہ وہ جلائے جانے سے ڈرتے ہیں مرنے کے بعد بھی آگ سے خوف کھاتے ہیں۔ میری ایک ہی آخری خواہش ہے کہ بے شک مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے مگر مرنے سے دو دن پہلے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا موقع مل جائے“۔
ارون دھتی رائے بتاتی ہیں کہ ہم پاکستان کے بنیاد پرستوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں مگر یہ تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ سال 1944ء میں راشٹریہ سیوک سنگھ کی بنیاد رکھنے والے ایم ایس گوسوالکر نے ہندوستان کی ہندو قومیت کی وضاحت یوں فرمائی تھی کہ ”جب سے مسلمانوں نے اپنے ناپاک پاؤں ہندوستان کی سرزمین پر رکھے ہیں تب سے اب تک ہندو ان کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور جب تک ان کا ہندوستان سے نام و نشان مٹ نہیں جاتا یہ جنگ جاری رکھیں گے۔ اپنے خون کو پاک صاف رکھنے کے لئے نازی جرمنی نے یہودیوں کی نسل کشی کے ذریعے پوری دنیا کو پریشان کر دیا تھا مگر ہمیں ہندوستان میں بھی وہی کچھ کرنا پڑے گا جو جرمنی میں نازی پارٹی نے کیا تھا“۔
ارون دھتی کے مطابق بنیاد پرست ہندوؤں کا مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں نیچی ذات کے ”دلت“ گھرانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی غیرانسانی سلوک چلا آ رہا ہے جس پر سیکولرازم اور جمہوری روایات کا پرچار کرنے والوں نے کبھی شرم محسوس نہیں کی۔ ابھی حال میں ہی اوڑیسا میں عیسائی گھرانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ واردات چالیس عیسائی انسانوں کی لاشیں چھوڑ گئی۔ چالیس ہزار سے زیادہ عیسائی گھرانے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کئے گئے جن میں سے آدھے مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔ ارون دتی لکھتی ہیں کہ پاکستان میں حافظ سعید کو ان کے گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے مگر بابوبجرنگ ضمانت پر رہا ہیں اور گجرات میں عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے چند سال بعد وہ وشوا ہندو پریشد کو چھوڑ کر شیوسینا میں شامل ہو گئے اور ان کے سابق گرو نریندر مودی ابھی تک گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں چنانچہ گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کی صدارت کرنے والا دوسری مرتبہ عام انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوا اور ابھی حال ہی میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان نے فرمایا کہ ”نریندر مودی تو دیوتا ہیں“ کچھ حیرت نہیں ہوتی جب بتایا جاتا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کو زندہ حالت میں آگ میں پھینکنے والے پولیس کے سپاہیوں کو بہادری کے قومی تمغوں سے نوازا گیا ہے۔ ہندوستان میں راشٹریہ سنگھ کی 45 ہزار شاخیں ہیں جن کے باقاعدہ دفاتر بھی ہیں جن کی سرپرستی سابق وزیراعظم اے بی واجپائی بھی کرتے ہیں۔پاکستان کی فوج پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ لبریشن تامل ٹائیگر (LTTE) جو کہ سری لنکا میں سب سے زیادہ خوفناک دہشت گرد تنظیم ہے انڈین آرمی کی پیدا کردہ ہے۔ اس کی تمام تر تربیت بھی ہندوستانی فوج نے کی تھی۔ (باقی کل)