گزشتہ کالم میں جدت طرازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی تھی کہ یہ کس طرح ملکی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم شعبہ زراعت کا ہے جس میں جدت طرازی کی شدید ضرورت ہے تاکہ دنیا کی بڑھتی ہو ئی آبادی کے لئے خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے جو آج 7ارب ہے اور عنقریب اگلی تین دہائیوں میں اسکی آبادی 9 ارب سے بھی تجاوز کر جائے گی ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سب سے بڑا چیلنج پانی تک رسائی ہے ۔ کرّہ ارض پر کل پانی کا تقریباً 98% سمندری پانی پر مشتمل ہے اورتقریباً 1% کھارا پانی (یعنی وہ پانی جس میں تازہ پانی سے زیادہ لیکن سمندری پانی سے کم نمکیات ہوتی ہیں ) ہے جو کہ فصلوں کے لئے قطعی موزوں نہیں ہے یعنی 99% پانی کاشت کیلئے مناسب نہیں۔ اوپر سے عالمی حرارت (global warming) کی بدولت پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ فصلوں کی کاشت کے لئے قابل استعمال پانی کے متبادل ذرائع دریافت کئے جائیں۔ 2006میں اقوام متحدہ کی جانب سے کئے گئے ایک تخمینے کے مطابق اس کرہ ارض پر 2025 تک ہر تین میں سے دو افرادآبی قلت کی وجہ سے سخت پریشانی کا شکار ہوںگے۔ جبکہ عالمی آبادی کا یہ حال ہے کہ ہر ہفتے 15 لاکھ افراد کا اضافہ ہورہاہے یعنی 15 لاکھ سےزائد افراد کے لئے خوراک کی ضرورت بڑھ رہی ہے جو کہ آبی قلت کو مزید سنگین بنارہی ہے ۔اس صورتحال میں سائنسی علوم آبی قلت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور کاشت کاری ، پینے کا شفاف پا نی اور دیگر ضروریات کے لئے ایسے عوامل دریافت ہو سکتے ہیں جن سے پانی تک رسائی آسان ہو سکے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی اور زمین کا غیر مستحکم اور بے دریغ استعمال ہوا ہے۔ اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر اس نقطے تک پہنچ گیا ہے کہ ایک دن دنیا میں ایساشدید بحران پیدا کر سکتاہے جسکا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔عالمی بینک کے ایک اندازے کے مطابق صرف بھا رت میں تقریباً 175ملین افراد پانی کی اضافی پمپنگ ( یعنی زیر زمین آبی ذخائر سے پمپ کے ذریعے پانی کو قدرتی رفتار کے نسبت زیادہ تیز رفتار سے سینچا جاتا ہے) سے اناج حاصل کرتے ہیں جس سےان کی پیداوار بری طرح متاثرہو سکتی ہے ۔ زیر زمین آبی ذخائر میں خطرناک حد تک کمی آرہی ہے سعودی عرب بھی زیر زمین آبی ذخائرکی بدولت گندم میں خود کفیل ہو اہے لیکن یہ ذخائر تیزی سے سوکھ رہے ہیں اورگندم کی پیداوارزیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکے گی۔اس کے ساتھ ساتھ غیر یقینی موسمی حالات اس صورتحال کو ا ور ا بتر بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔2010ماسکو میں شدید گرمی کی لہر نے وہاں کی 40% لاکھوں ٹن اناج کی فصلوں کو تباہ کردیا تھا ۔یہی حال اگر بھارت، چین یا امریکہ میں ہوتا تو اناج کی پیداوار ی صلاحیت بری طرح ا ثرانداز ہوتی اور قحط کی صورت حال پیدا ہو جاتی ۔بہت سے ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیاہے اور اربوں غریب افراد کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے انتہائی متنازع بندوں کی تعمیر شروع کردی ہے جس کا مقصد پانی کا رخ پا کستان کی طرف سے ہٹانا ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان ایک جوہری جنگ ہو سکتی ہے اور یہ صورتحال خطر ناک تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
ہمارےکرہ ارض کادو تہائی حصّہ پانی پر مشتمل ہے لیکن یہ پانی زیادہ تر نمکین ہے اور زراعت کے لئے ناقابل استعمال ہے۔ البتہ آپ نے غور کیا ہوگا کہ کچھ پودے اس نمکین پانی میں زندہ رہتے ہیں مثلاً مینگرو جو سمندری کناروں پر پائے جاتے ہیں ۔ ان پودوں میں قدرتی طور پر نمک رواداری کا جینیاتی نظام موجود ہوتا ہے۔ ایک اور قسم کے پودے جنہیں ہیلو فائیٹ کہا جاتا ہے وہ ساحلی علاقوں، ریگستانوں،دلدل،کھارے آبی ذخائر، حتیٰ کہ سمندری اور بحیرہ کے پانی میں بھی آسانی سے نشوونما پاسکتے ہیں اور اسطرح خوراک اور تیل کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سمندری پانی کے وسیع ذخیرے کے استعمال کا ایک اور ذریعہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ نمک روادار جین کی شناخت ہوجائے اور اسے غذائی فصلوں مثلاً گندم ، مکئی اور چا ول کے جین میں شامل کردیں تو یہ فصلیں بھی نمک روادار ہو جائیں گی اور پھر یہ سمندری اور کھارے پانی میں بھی نشوونما پا سکیں گی ۔اسی طرح وسیع اراضی پر پھیلی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانےکےلئےہیلوفائیٹس پودے مددگارثابت ہوسکتے ہیںکیوںکہ کچھ ہیلو فائیٹس پودوںمیں تھور زدہ زمین میں سے نمکیات کم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
عام طور پر سمندری پانی سے پینے کا صاف پانی حاصل کرنے کے لئے معکوس عمل نفوذ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں سمندری پانی کو پمپ کے ذریعے کثیر مرکبی جھلی سے گزارا جاتا ہے نتیجتاً جھلی کی ایک جانب صاف پانی آجاتا ہے اور دوسری جانب نمکیات رک جاتی ہے ۔ تاہم یہ عمل کافی مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اس کے لئے کافی مقدار میں توانائی کا استعمال ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ اس میں استعمال ہونے والی مخصوص جھلی بھی مہنگی ہوتی ہے اور اس کوباقاعدگی سے مقررہ میعا د کے بعد تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کے حوالے سے ایک اور دلچسپ پیشرفت ہوئی ہے جس میں پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت کے بجائےبہاؤ کے رخ پر‘ جھلی کے ذریعے پانی صاف کیا جاسکے گا اس عمل کو مستعد نفوذ عمل کہا جاتا ہے۔ اس میں جھلی کی ایک جانب زیادہ گاڑھا منحل(جیسا کہ چینی) کو رکھا جاتا ہے اور دوسری جانب سمندری پانی ہوتا ہے اس طرح پانی فطرتی انداز میں منحل (مثال کے طور پر چینی)کی جانب بڑھتا ہے۔ یہی عمل سمندری پانی سے سافٹ ڈرنک بنانے میں بھی کیا جاتا ہے۔اس عمل میںتقریباً 80% توانائی کی بچت ہوتی ہے کیونکہ جھلی سے پانی کو بہاؤ کے رخ کی جانب ہی سفر کر نا ہوتا ہے ۔ البانی ، آریگان ، امریکہ میں واقع Hydration Technology Innovations کمپنی نے سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کو استعما ل کیا ہے۔ انہوں نے امریکی سپاہیوں کے لئے "X-packs" نامی مشروبات کے پیکٹ بنائے جن میں جھلی کی ایک جانب چینی اور مختلف ذائقے ہوتے ہیں۔ جب ان ڈبوں کو سمندری پانی یا عا م پانی حتیٰ کہ گندے پانی کے تالاب میں ڈبویا جائے تو جھلی سے صرف مصفا پانی اندر داخل ہوتا ہے اور تمام نمکیات اور گندگی باہر ہی رہ جاتی ہے اس طرح ایک ذائقے دار اور توانائی بخش مشروب تیار ہوجاتا ہے ۔
پھل ، سبزیوں اور دیگر غذائی ٖفصلوں کے ساتھ ایک اور حقیقت منسلک ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے بیشتر موسمی ہوتے ہیں ۔یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان پودوں میں ایک مخصوص کیمیائی گھڑی کانظام کارفرما ہوتاہے جو کہ وقت پر قابو رکھتا ہے کہ کس وقت پھول کھلیں گے اور کیڑ وں کو افزائش کے لئے اپنی جانب متوجہ کریں گے اور کب پھل پیدا ہونگے ۔سائنسدان ان عوامل کے نظام کو سمجھنے کے لئے کو ششیں کر رہے ہیں ۔ امریکہ میں ییل یونیورسٹی میں سائنسدانوں نے پودوں میں ان افعال کا ذمہ دار جین (DET1) دریافت کر لیا ہے ۔لہٰذا پودوں میں قدرتی طور پر موجود حیاتیاتی گھڑیوں (biological clocks) پر قابو پانے سے بجائے اسکے کہ یہ فصلیں اپنے مقررہ موسم ہی میں دستیاب ہو سکیں اب پورے سال تمام ، پھل ،سبزیوں اور غذائی فصلوں کو حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے ۔ مثال کے طور پر وہ دن اب دور نہیں جب ہمیں آم صرف گرمیوں کی بجائے سردیوں میں بھی دستیاب ہوں گے۔
پاکستان کی ترقی کے لئے اہم شعبوں مثلاًزراعت ،اور دیگر شعبوں میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے اس کے لئے دو سال کی انتھک محنت سے ایک نہا یت منظم مسودہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سائنسدانوں ، صنعت کاروں ، کسانوں اور سرکاری افسران کی ماہرانہ مشاورت سے میری سرپرستی میں تیار کیا گیا تھا جب میں ایچ ای سی کا چیئر مین تھا۔یہ 320صفحاتی مسوّدہ بعنوان ’ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر صنعتی نظریہ وحکمت عملی کابینہ سے منظور شدہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس دستاویز میں درج سفارشات کے مطابق اپنے قومی ترقیاتی منصوبوں پرعملدرآمد کریں۔
پاکستان کو اپنے قومی ترقیاتی منصوبوں میں چند اہم منصوبوں پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ وہ منصوبے یہ ہیں کہ تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے ، آبادی میں اضافے پر قابو پایا جائے ، جدید اور ماحول دوست کاشت کاری تکنیک استعمال کی جائے، ماحول کا فطرتی توازن برقرار رکھنے کے لئے کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے لئے موزوں اقدامات کئے جائیں، جنگلات میں اضافہ کیا جائے، زمینوں کو بحال کیا جائے ،اور تمام سطحوں پر پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔موجودہ حکومت نے تعلیم کے لئے اپنے قومی ترقیاتی بجٹ کا 4% حصّہ رکھنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حقیقتاً اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا اسی طرح گزشتہ حکومت نے بھی کابینہ کی منظوری کے ساتھ تعلیم کے لئے اپنی GDP کا 7% حصّہ مختص کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ سب الفاظ ادا کرنے ہی کی حد تک تھے دراصل ان کا تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور تعلیم ، سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر سرمایہ کاری کریں تاکہ ہم بھی اقوام عالم کی صف میں پر وقار طریقے سے کھڑے ہو سکیں۔