محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنوری 1984ء میں کان کے علاج کے لئے لندن پہنچ کر یہ حیرت انگیز جملہ کہا تھا۔ ’’مجھے یقین نہیں آیا کہ میں آزاد ہوں‘‘ دراصل جنرل ضیا کے آمرانہ دور میں ساڑھے پانچ سال کی قیدوبند پر ان کا یہ جامع تبصرہ تھا ۔ کان کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ چھ ماہ بعد آپ کو پھر معائنے کے لئے آنا ہوگا۔ چنانچہ بیگم صاحبہ نے اپنی بیٹی کو مشورہ دیا کہ وہ لندن ہی میں قیام کریں۔ کیونکہ پاکستان واپسی کی صورت میں انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت شاید نہ مل سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل ضیا نے عالمی دبائو کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کو بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی اجازت دی تھی۔ چنانچہ بی بی نے واپسی کی بجائے لندن ہی میں قیام کا فیصلہ کیا اور صحت یابی کے بعد پارٹی کی تنظیم اور کارکنوں کو محترک کرنے کے لئے انہوں نے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس وقت پی پی کے کئی سینئر رہنما لندن میں مقیم تھے۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب کیا اور اس طرح پی پی پی کو فعال کرکے یو کے میں اہم کردار کے لئے تیار کیا۔
بی بی نے خود برطانیہ کے مختلف شہروں میں مقامی سیاسی رہنمائوں، ارکان پارلیمنٹ، برطانوی اخبارات اور ٹیلی وژن پر انٹرویو کے ذریعے جنرل ضیا کے مارشل لا کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا۔ اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے لندن میں بیٹھ کرجدوجہد کو جاری رکھا۔ انگلینڈ کے علاوہ بی بی نے امریکہ اور یورپ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی مقامی شاخوں کی دعوت پر دورے کئے اور وہاں کے سیاسی رہنمائوں اور اخبارات کے ذریعے جنرل ضیا کی آمریت کو بے نقاب کیا۔
ایک مختصر عرصے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی ذہانت اور جدوجہد کی بدولت پاکستان کی پہچان اور جمہوری جدوجہد کی علامت بن گئیں۔ انہوں نے دو سالہ جلاوطنی کے دوران پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لئے عالمی سطح پر پاکستان کا نقش اجاگر کیا اور انہیں مستقبل کی پاکستانی حکمراں اور وزیراعظم کہا جانے لگا۔ وہ سیاسی حلقوں، ذرائع ابلاغ اور عوام میں جمہوریت کی آواز اور چہرہ بن گئیں۔یورپی اخبارات اور ٹیلی وژن کی وہ پاپولر شخصیت تھیں،ان کی ہردلعزیزی اپنے عروج پر تھی۔
جون 1984ء میں وہ ڈنمارک کے دورے پر گئیں۔ وہاں کے مؤقر اخبارات نےانہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ۔ ڈنمارک کے ممتاز روزنامے پولیٹکن نے ’’مشرق کی شہزادی‘‘ کے عنوان سے ان کا انٹرویو شائع کیا ۔
یونانی ہیروئن انسٹی گان کی طرح بے نظیر بھٹو نے انتہائی کم عمری صرف 30سال کی عمر میں پاکستان کے حکمراں کے ظلم اور سفاکی کے خلاف اپنی ذات ،ضمیر اور ہمت کو صف آرا کرکے دنیا کے لئے ایک مثال قائم کردی ہے گو ظالم حکمرانوں نے بے نظیر بھٹو کو ان کے والد کی لاش دفن کرنے کا موقع نہ دیا۔ تاہم کئی سال کی قیدِ تنہائی اور قتل کی دھمکی کے باوجود انہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کو دفن کرنے سے انکار کردیا۔
بے نظیر بھٹو کی رہائی اور جلاوطن کئے جانے کی وجہ بین الاقوامی دبائو تھاشاید ڈکٹیٹر کو یہ بھی خیال تھا کہ اگر بھٹو خاندان کے خون سے اس نے اپنے ہاتھ رنگے تو اس کی شہرت ختم ہو جائے گی۔ اس لئے بے نظیر بھٹو سے یہ یقین دہانی نہ مل سکی کہ وہ اپنے والد اور وزیراعظم کے مقدمہ قتل کو دفنا دیں گی۔ اس کے برعکس بے نظیر بھٹو اپنے والد شہید کی جدید اور سوشلسٹ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ظالم حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑرہی تھیں۔
امریکہ سے ہارورڈ اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ دراز قد، دبلی اور باوقار مشرق کی اس شہزادی کے بارے میں کسے خبر تھی کہ وہ اپنے امتحان کے چند سال بعد پاکستان کے لئے اتحاد کا سمبل بنے گی۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں انقلاب اس وقت آیا جب ضیا الحق نے 1977ء میں بغاوت کرکے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار خود لے لیا۔ اس وقت بے نظیر بھٹو ایک نہ جھکنے والی سیاسی آرگنائز کی حیثیت سے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرکے اپنے والد کی رہائی اور ان کی سیاست کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرنے لگیں۔ ان کی تقریروں کا عوام پر بے پناہ اثر ہوا۔ جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا جونہی انہیں رہا کیا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا جائے گا انہوں نے ضیا آمریت کے خلاف اپنے بھرپور حملے جاری رکھے۔ اس کم عمر سیاستدان سے تنگ آ کر ضیاء الحق نے اس شرط پر انہیں رہا کرنے کی پیشکش کی کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر نہ چلیں لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
بے نظیر بھٹو پر جو قیامت گزری اس کے باوجود جب وہ بولتیںتو ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں ہوتے وہ اپنے آپ پر رحم نہیں کھاتی تھیں جب وہ جیل میں اپنے اوپر مظالم کی بات کرتیں توسمجھتیں کہ ہمارے لاتعداد پارٹی ورکر، سابق وزرائے اعلیٰ، ایک گورنر اور ہزاروں کارکن جیلوں میں سزائوں کے منتظر ہیں۔ ہمیں اب ان لوگوں کے لئے جنگ لڑنی ہے۔ یہ مثال دے کر اس جدید ’انسٹی گان‘ نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے لئے آزادی محض الفاظ سے کہیں زیادہ ہے اس کے لئے بے مثال بہادر خاتون قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ با لآخر 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان پر قربان ہو کر زندئہ جاوید ہو گئیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اگست2007میں پاکستان واپسی کی تیاری کر چکی تھیں اس وقت وہ لندن میں تھیں۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں بلاول، بختاور اور آصفہ کودبئی بھیج دیا تھا ۔ اپنی ہمشیرہ صنم بھٹو کی 24اگست کو سالگرہ کے لئے ٹھہر گئیں۔ ایک دن ہم نے اکٹھے لنچ کیا۔ اس دوران بی بی شہید نے مجھ سے یہ حیرت انگیز جملہ کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ عرصہ جئیں گے یہ سن کر میں چونک گیا۔ بی بی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں اور آپ کا یہ خیال ٹھیک نہیں۔ بی بی نے بڑے یقین سے کہا۔ آپ مجھ سے لمبی عمر پائیں گے اور میرا مشن جاری رکھیں گے۔
اس وقت مجھے قطعاً یہ یقین نہیں تھا کہ بی بی جو کہہ رہی ہیں۔ ان کی یہ بات چار ماہ بعد درست ثابت ہوگی۔ 27دسمبر2007کو اپنی زندگی کے بارے میں ان کی کہی ہوئی یہ بات قومی المیے کی صورت میں صحیح نکلی اور پاکستان میں پوری قوم اور دنیا کو اشکبار کر گئی۔ پاکستان کو ایک ہر دلعزیز ذہین ترین سیاستدان اور عظیم مدبر خاتون رہنما کی شہادت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو آج آٹھ برس ہو رہے ہیں جبکہ اصل قاتل نہیں پکڑے گئے۔ بی بی شہید کو شاید علم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جتنی زندگی عطا کی ہے وہ اپنے اختتام کی جانب رواں ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ بی بی نے لندن میں قیام کے آخری ایام میں 2007ءمیں اپنی زندگی کے بارے میں پیش گوئی کردی تھی۔