• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے شہر قائد سمیت پورے باب الاسلام سندھ میں جب جب ایک اچھی خاصی تعداد مدہوش ہونے لگتی ہے تو حکومت عدالت جا دوڑتی ہے کہ کچھ کیجئے،شراب پر پابندی لگائیے، وگرنہ باب الاسلام دا رلحرب بن جائے گا، حالانکہ اس مدہوشی میں ہی حکمرانوں کا فائدہ ہے، کیونکہ اگر جمہور ہوش میں آگئی تو پھر یہ کیا وہ کرسکیں گے جو اب بے خوف و خطر کررہے ہیں؟ یوں حقیقت بھرپور طورپر عیاں ہے کہ حکمراں کبھی بھی نہیں چاہتے کہ شراب پر پابندی لگے، بظاہر تو اب بھی پابندی ہے، لیکن وہ پابندی جس سے مے، مے خوارو کی دسترس میں نہ آئے،اس کا اسلامہ جمہوریہ میں تصور بھی مضحکہ خیز ہے۔ فیض صاحب نے برسوں پہلے یونہی تو نہیں کہا تھا۔
محتسب کی خیر اونچی ہے اسی کے فیض سے
رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام
یہ قصہ صرف محمد بن قاسم کے مفتوحہ سندھ تک محدود نہیں، بلکہ کرتار سنگھ اور بھگت سنگھ جیسے آزادی کے متوالوں اور رنجیت سنگھ کو ہیرو ماننے والوںکی سر زمین سے لے کر پورے ملک پر محیط ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پختون لکھا ری ہونے کے ناطے ہم پختونخوا کا نام گول کر گئے، مگر ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ’چرس‘ کی حکمرانی ہے(براہ کرم توجہ کسی اعلیٰ یا ادنیٰ وزیر کی طرف نہ لے جائیں)۔ ایک خبر ہے کہ کسٹم انٹیلی جنس نے یکم نومبر تا 30نومبر 2016یعنی صرف ایک ماہ کے دوران ایک ارب 46کروڑ83لاکھ روپے سے زائد اسمگل شدہ سامان ضبط کیا جس میں 122لگژری گاڑیوں سمیت شراب، چرس، افیون، ہیروئن، سگریٹ سمیت کپڑا، ادویات، کپڑا، ،برقی آلات و دیگر اشیا شامل ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ایک مہینے میں ڈیڑھ ارب روپےکی اشیا ضبط ہوئی ہیں تو پھر کتنے ارب کی اشیا پار ہوتی ہوں گی ؟خیر اصل سوال یہ ہے کہ ضبط شدہ اشیا پھر جاتی  کہاں ہیں؟ کیا عام عوام کو اس کا فائدہ ہوتا ہے یا ضبط ہونے اور پار ہونے، ہر دو صورتوں میں اختیار مند ہی فائدے میں رہتے ہیں!!
ایک اور خبر ملاحظہ فرمائیں،کسٹمز کلکریٹ پورٹ قاسم (کراچی )کی جانب سے ضبط شدہ 6ہزار 8سو غیر ملکی شراب کی بوتلوں کو تلف (ضائع) کرنے کی کارروائی ہوئی۔آپ جانتے ہیں کہ کسی کھلے مقام پر منشیات کو آگ لگا کر اور شراب کی بوتلوں پر رولر پھیر کر ظاہر کیا جاتا ہے کہ ضبط شدہ ’سارا مال‘ ضائع کردیا گیا ہے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے یعنی حساب ’بےباق‘ ہے۔خیر جب اس کارروائی کے بعد وڈے افسران چلے گئے ، تو کچھ ہی لمحوں کے بعد کہتے ہیںکہ وہاں موجود پولیس اور کسٹمز اہلکار ’رولر‘ کی زد سے محفوظ دخترِانگور یعنی بچی کھچی بوتلوں پر ٹوٹ پڑے اور کسٹمز اور پولیس اہلکاروں میں بوتلیں چننے کا مقابلہ شروع ہوگیا ، پھر دختر انگور کے ساتھ وہ کیا گیا جو کسی محافظ کے ہر گز شایان شان نہیں۔ یعنی صورت حا ل پھر یوں بنی ۔
جامِ مے توبہ شکن ، توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
اس پر ہمارے ایک دوست کا تبصرہ یہ ہے کہ یار یہ تلف کرنا تو صرف دکھاوا ہوتا ہے اصل مال مسروقہ تو اصل مقامات پر اور اس کے عوض ’مال‘ صاحبان اختیار کی تجوریوں میں پہنچ جاتا ہے۔ کہنے لگے پھر کیا منشیات کے خلاف برپا ’جہاد‘ میں ان مسکین اہلکاروں کا اتنا بھی حق نہیں ہے کہ وہ کم از کم مال غنیمت میں دو چار بوتلوں کے حق دار بن جائیں! پھر مفت کی شراب تو قاضی نے بھی پی ہے۔کہنے لگے کہ دخترِ انگور سے سرراہ چھیڑچھاڑ پر یہ بیچارےچھوٹےاہلکارخواہ مخواہ بدنام ہوگئے،وگرنہ حقیقت تو بقول عبدالحمید عدم یہی ہے۔
فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دوگھڑی
شرابیں تری،بادہ خانے ترے
مملکت خداداد پاکستان میں ہمارے سیاسی ، مذہبی لیڈران یہ یاد دلاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ یہ ملک 99فیصد مسلمانوں کا ملک ہے، بالکل ایسا ہی ہے، لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ پھر اتنی بڑی مقدار میں شراب دیارِ غیر سے کیا صرف ایک فیصد اقلیت کے لئے آتی ہے؟ جبکہ پاکستان خود بھی اس پیداوار میں خود کفیل ہے! ہوسکتا ہے کہ دیسی و پردیسی شراب پھر جانور و حیوانات پیتے ہوں کہ ان کا تو کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا...! بہرصورت آج کا نوحہ یہ ہے کہ دنیا کی واحد نظریاتی مملکت میں اس وقت مسلمانوںکی بہت بڑی تعداد منشیات استعمال کررہی ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں، وبائی شکل اختیار کرتی اس موذی بیماری نے بالخصوص نوجوان نسل کو اپنے بازوئوں میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان میں اس وقت افیون، چرس، حشیش، بھنگ، شراب، الکحل، پیٹرول، گانجا، کوڈین، ایل ایس ڈی، خواب آور گولیاں، نارکوٹکس کے ٹیکے اور شیشہ استعمال میں ہے۔ ڈاکٹر محمد طارق خان کی کتاب منشیات، سماجی مسائل اور سد باب میں ان نشوں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کے مطابق جو دوائیں جنسی طاقت کے لئے استعمال ہوتی ہیں ماہرین نے ان دوائوں کو بھی نشہ آور اشیا کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
منشیات کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، محققین نے قدیم غاروں میں دفن شدہ بھاری مقدار میں نشہ آور بوٹیوں کے بیج دریافت کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ 40ہزار سال قبل کا انسان چرس اور گانجا استعمال کرتا تھا۔ فرانسیسی محقق جیکو ئس ڈبوئس (Jecoes Daboes)نے غاروں میں مدفن پتھر کی بنی ہوئی پائپ نما سلفیاں دریافت کی ہیں جن میں نشہ آور بیج بھرے ہوئے تھے۔ایران اورافغانستان میں چرس کا استعمال برطانوی قبضے سے شروع ہوا۔ افیون برصغیر میں سکندر اعظم نے متعارف کرائی، اس کے جرنیل زخمی فوجیوں کو افیون کھلاتے تھےجبکہ چین میں افیون انگریزوں نے متعارف کرائی، 1913ءمیں ایک سروے کے مطابق چینی آبادی کا ہر چوتھا آدمی افیون کا عادی تھا۔ ہیروئن 1874ءمیں پہلی بار امریکہ نے تیار کی، ہیروئن، افیون سے 80فیصد زیادہ نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر طارق خان کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں  ہیروئن کا استعمال افغان جنگ (نام نہاد افغان جہاد) کے بعد 1981ء سے شروع ہوا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1979ء کے آخر تک پاکستان میں ایک فرد بھی ہیروئن استعمال نہیں کرتا تھا یعنی یہ ضیا الحق صاحب اور ہمارے نام نہادافغان جہاد کا’ صدقہ جاریہ‘ ہے، جسکے باعث اب تک لاکھوں خاندان تباہ ہوچکے ہیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسے عناصر کیخلاف کوئی مارچ،کوئی سونامی، کوئی دمادم مست قلندر،کوئی ضرب عضب کب ہوگا جو پاکستانی عوام کے ذہن وخون میں زہر گھول کر بھی پارساو محبِ وطن بنے بیٹھے ہیں.....؟



.
تازہ ترین