• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبر کو کئی تحریریں پڑھنے کا موقع ملا، کئی پروگرام بھی دیکھے مگر اس مرتبہ میڈیا کی زیادہ توجہ سانحۂ اے پی ایس پشاور پر رہی۔ سقوطِ ڈھاکہ پر کم لکھا گیا، کم بولا گیا۔ سو اس لئے آج بیس دسمبر کو میں سقوطِ ڈھاکہ پر لکھ رہا ہوں۔ 1971ء میں انڈین میڈیا اور عوامی لیگ کے پروپیگنڈا سیل نے جو زہریلا تاثر پھیلایا تھا وہ کئی برس لوگوں کے ذہنوں میں رہا بلکہ اب بھی جب کبھی سقوطِ مشرقی پاکستان پر بات ہوتی ہے تو کئی لوگ ہماری فوجی قیادت پر اور کئی لوگ پیپلز پارٹی پر برستے ہیں حالانکہ ان دونوں کا قصور نہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر دونوں کا قصور نہیں تو پھر کس کا قصور تھا؟ اس کا جواب آگے چل کر دیتا ہوں فی الحال چند حقائق سے پردہ اٹھا لوں۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے حقائق سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے چونکہ وقت ہر ایک کو بے نقاب کر کے رہے گا۔ مثلاً عوامی لیگ اور بھارتی میڈیا نے پاکستانی فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا کہ پاکستانی فوج نے بنگالیوں پر بڑے ستم ڈھائے، مردوں، عورتوں، بچوں پر بہت ظلم کیا خاص طور پر عورتوں سے بڑی زیادتیاں ہوئیں۔ پاکستانی فوج نے وہاں کیا ظلم کرنا تھا، یہ سوچا جا سکتا ہے کہ پاک فوج اپنے ہی شہریوں پر ظلم کرے، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اصل صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس کی اصلی تصویر کشی ایک سینئر انڈین ریسرچر (محقق) شرمیلا بوس نے کی ہے۔ آپ شرمیلا بوس کی کتاب "Dead Reckoning" پڑھ سکتے ہیں۔ یہ کتاب 1971ء کی جنگ کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں ان تمام الزامات کی تردید کی ہے جو پاکستانی فوج پر لگائے گئے تھے۔ مکتی باہنی وہاں کیا کرتی رہی، اس کے لئے بنگلہ دیشی لکھاری زین العابدین کی تحریریں پڑھی جا سکتی ہیں۔زین العابدین خود مکتی باہنی کا سرگرم کارکن رہا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اسی عہد اقتدار میں بڑے فخر سے اظہار کیا ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کا کتنا اہم کردار ہے۔
1981ء میں اشوکا رائنا کی کتاب "Inside RAW"نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 48سے 50تک بڑے واضح انداز میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح ساٹھ کی دہائی کے مختلف سالوں میں را نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ کس طرح انڈین آئی بی کے فارن ڈیسک نے 1962-63ء میں اگرتلہ میں شیخ مجیب الرحمٰن سیکشن سے میٹنگ کی پھر 1968ء کے بعد کیسے را نے علیحدگی کی اس تحریک میں آگ بھری۔
ایک گواہی خود بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے دی ہے۔ لندن پلان کی ساری کہانی ’’حسینہ‘‘ نے خود بیان کر دی ہے۔ ’’اگرتلہ سازش کیس کا اہم کردار بنگا باندھو 1969ء میں 22اپریل کو رہا ہوا تھا، بنگا باندھو 22اکتوبر کو لندن پہنچا، میں بھی اگلے دن لندن پہنچ گئی، میں اٹلی سے لندن پہنچی۔ اٹلی میں، میں اپنے خاوند کے ساتھ رہ رہی تھی۔ شیخ مجیب اور بنگا باندھو نے آزادی کی تحریک کا سارا پروگرام ترتیب دیا ،میں نے اپنے کانوں سے یہ سارا پروگرام سنا....‘‘
ایک گواہی بھارت کے وزیر اعظم نے دی، دوسری گواہی کے طور پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کی باتیں، دو مشہور بھارتی لکھاریوں کی گواہیاں اور اب میں جے این ڈکشٹ کی گواہی پیش کرنے لگا ہوں۔ مسٹر ڈکشٹ دسمبر 1971ء کے بعد ڈھاکہ میں قائم انڈین ہائی کمیشن میں بطور ہائی کمشنر تعینات ہوئے۔جے این ڈکشٹ اپنی کتاب "Liberation and Beyond - Indo- Bangladesh Relations"میں ایک واقعہ لکھتے ہیں، یہ واقعہ ایسے لوگوں کے لئے کافی ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو قرار دیتے ہیں۔ بقول ڈکشٹ ’’جولائی 1974ء میں بھٹو ڈھاکہ تشریف لائے۔ ایئر پورٹ سے ’’بنگا بھاون‘‘ تک سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا ہجوم تھا، پاکستان بنگلہ دیش دوستی زندہ باد، ذوالفقار علی بھٹو زندہ باد کے سلوگن کے ساتھ صدائیں بلند ہو رہی تھیں، میرا تعارف کروایا گیا، انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور شیخ مجیب کی طرف مڑ کر کہا ’’یہ اُس ملک کی نمائندگی کر رہا ہے جس نے 1971ء میں برصغیر کے نقشے کو دوبارہ ترتیب دیا‘‘۔ پھر بھٹو نے مجھ سے کہا ’’ممکن ہے نقشہ دوبارہ ترتیب دینے میں یہ ہماری مدد کرے کہ یہ مدد کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے ہو جو ایک عرصے سے حل طلب ہے‘‘۔ ایئر پورٹ سے واپسی کا یہ سفر عوامی لیگ کے لئے اچھا نہ تھا کہ جب شیخ مجیب الرحمٰن پریذیڈنٹ ہائوس جا رہا تھا تو لوگوں نے اس کی گاڑی پر مٹی آلود جوتے برسائے۔ میری گاڑی پر لگا جھنڈا توڑ دیا گیا، انڈین ہائی کمیشن اور انڈین گورنمنٹ کو غلیظ گالیاں دی گئیں‘‘۔
بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد شاید اسی لئے ہر بات پر بلکہ بات بات پر بھارت کا شکریہ ادا کرتی ہیں چونکہ انہیں اندازہ ہے کہ بنگالیوں کو کس طرح ورغلایا گیا تھا ورنہ وہ تو آج بھی پاکستان کی محبت میں موت کو قبول کر رہے ہیں۔
میں نے ہندوستانی لکھاریوں کے فراہم کردہ حقائق میں سے چند ایک پیش کئے ہیں۔ دراصل یہ کہانی پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئی تھی کیونکہ بھارت کو اپنے دونوں طرف پاکستان کے بازو قبول نہیں تھے۔ ’’حسینہ‘‘ کا پسندیدہ ملک دونوں اطراف سے پاکستانی بانہوں میں پھنسا ہوا تھا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے جو کھیل انگریزوں کے ساتھ مل کر کشمیر میں کھیلا تھا وہی کھیل شیخ مجیب کے ساتھ مل کر را نے کھیلا۔ کشمیر کو فتح کرنے کے لئے انڈین آرمی کو سری نگر ایئر پورٹ پر انگریزوں کی مدد سے اتارا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے کھیل میں بھی کہیں نہ کہیں پس پردہ مغربی طاقتیں کارفرما تھیں ورنہ ایک ملک کی ایک دوسرے ملک میں اتنی کھلی مداخلت پر اقوام متحدہ کا خاموش رہنا سمجھ سے باہر ہے۔ جی ہاں! میں عرض کر رہا تھا کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی بھارت نے بنگالیوں کو زبان کے نام پر بھڑکانا شروع کر دیا تھا، بعد میں اس میں حقوق کو بھی شامل کر لیا گیا، پھر پسماندگی کا رونا شیخ مجیب کی زبانی شروع ہو گیا، مکتی باہنی بن گئی، انڈین فوج نے علیحدگی پسند بنگالیوں کی ٹریننگ کی، ہمارا قصور اتنا ہے کہ ہم مداخلت پر مصلحت کا مظاہرہ کرتے رہے، دشمن کھیل کھیلتا رہا، ہمیں چاہئے تھا کہ ہم اگرتلہ سازش کیس ہی میں غداروں کی گردنیں اڑا دیتے، اگر یہ کام ہو جاتا تو بعد میں پیش آنے والی سازشوں کو پنپنے کا موقع نہ ملتا۔ جیسے ابھی ہم نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے کیا ہے۔ اب بھی بھارت نے اسی طرز پر کراچی اور بلوچستان میں سازشوں کا جال بُنا تھا ۔مگر اب ہماری حکمت عملی نے اسے ناکام بنا دیا ہے۔ ملکوں کی سلامتی کیلئے یہی ضروری ہے کہ غداروں کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ یہ عظیم وطن ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ بقول احمد ندیم قاسمی ۔
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو




.
تازہ ترین