اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ا ن دنوں افرا تفری کا عالم ہے کیونکہ اس وقت بیک وقت تین اعلیٰ تعلیمی کمیشن موجود ہیںجو جامعات کا نظام سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ صورتحال سندھ اور پنجاب کے ایچ ای سی قائم ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہ وفاقی ایچ ای سی ہی کے عوامل سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ صوبائی ایچ ای سی ان دو سو پارلیمانی اراکین کے اکسانے پر قائم کئے گئے ہیں جن کی جعلی ڈگریوں اور دستاویزات کو وفاقی ایچ ای سی نے توثیق کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ صوبائی ایچ ای سی کا قیام سراسر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس اقدام کے خلاف میں نے اور ماروی میمن صاحبہ نے سندھ ہائی کورٹ میں 2011 ء میں پٹیشن دائر کی لیکن افسوس کہ یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں چار سال سے زیر التوا ہے اس تا خیر پر ساری دنیا میں ہمارا مذاق اڑ رہا ہے ۔ جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے خوش قسمتی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کر تے ہوئے صوبائی ایچ ای سی قائم نہیںکی۔ لیکن ملک بھر کی 80% جامعات صوبہ سندھ اور پنجاب میں واقع ہیں لہٰذا ملک کی بیشتر جامعات مستقل بحران کا شکار ہیں۔ ان جامعات کو صوبائی اور وفاقی دونوں ایچ ای سی سے نوٹس موصول ہوتے ہیں اور ان کے شیوخ الجامعہ اس شش و پنج کا شکار ہیں کہ کس کے احکامات کی پیروی کی جائے اورکس کی نہیں۔
ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ صوبائی ایچ ای سی اٹھارویں ترمیم کے تحت بنائی گئی ہے جبکہ حقیقت بالکل اسکے بر عکس ہے۔ ا ٹھارویں ترمیم کی تشکیل کے وقت آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے با لخصوص یہ فیصلہ کیا تھا کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم صوبوں کے زیر اختیار رہے گی جبکہ اعلیٰ تعلیم وفاق کے زیر اختیار ہوگی کیونکہ اسکا براہ راست تعلق قومی یکجہتی اور قومی ترقی سے ہے۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم سے متعلق تمام فیصلے وفاقی سطح پر کئے جا نے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق بھارت، کوریا، ترکی ، چین، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہمیشہ وفاق کا حصہ رہی ہے۔ اگرچار صوبائی ایچ ای سی بیک وقت کام کریں گے تو قومی سطح پر پاکستانی طلباکی ڈگریوں کے مساوی اور تسلیم ہونے میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔نہ صرف یہ بلکہ قومی سطح پر معیار تیزی سے گر جائے گا جو کہ ہونا بھی شروع ہو گیا ہے جس کا اندازہ اس با ت سے لگایا جا سکتا ہے کہ حا ل ہی میں سی ایس ایس کے امتحان میں حصہ لینے والے 9,643 طلبہ میں سے صرف 202 طلباپاس ہوپائے۔ یعنیٰ98% فیل ہو گئے۔
انہیں مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے 2002ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام وفاقی قانون کے تحت عمل میں آیا تھا جس کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن ملک بھر کی تمام جامعات کا واحد ادارہ تھا جس پر صوبائی جامعات اور ڈگری دینے والے کالجوں کی ذمہ داری بھی عائد تھی۔جبکہ اسکولوں اور ڈگری نہ دینے والے کالجوں کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے حوالے تھی۔ 2010ء میں پی پی پی کی حکومت نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو تحلیل کرکے صوبائی ایچ ای سی کے قیام کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی۔12 اپریل 2011ء کو سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پی پی پی کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار د ے دیا۔ اور واضح حکم دیا کہ اعلیٰ تعلیم صرف وفاق کی ایچ ای سی کے تحت کام کرے گی ۔تا ہم سندھ اسمبلی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 21 فروری 2013ء میں سندھ کی صوبائی جامعات کے لئے صوبائی ایچ ای سی قائم کرلی۔ جبکہ اسکا قانون بھی وفاقی ایچ ای سی کا چربہ تھا۔ یہ سراسر غیر قانونی تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی توہین تھی ۔2011ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ آ ئین کی اٹھارویں ترمیم (شیڈول 4، آرٹیکل 70(4) وفاقی قانون کی فہرست کے حصہ اول اور دوئم )کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے حقوق صرف وفاق ہی میں محفوظ ہیں جس کا ذکر وفاقی قانون کی فہرست میںواضح طور پر درج ہے۔ ان میں تحقیق، پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت، سائنسی اور تکنیکی تحقیق میں منصوبہ بندی اور ہم آہنگی، قانونی ، طبّی اور دیگر پیشے، اعلیٰ تعلیم اور تحقیق، سائنسی اور تکنیکی اداروں میں معیار ، اسکے علاوہ بین الصوبائی معا ملات اور مطابقت کے ادارے شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے نہایت واضح طور پر بیان کردیا تھا کہ آئین کی ان دفعات کا اعلیٰ تعلیمی کمیشن پر براہ راست اطلاق ہوتا ہے۔ اور کسی بھی طرح پہلے سے موجود وفاقی قانو ن سے بالا تر ہو کر نئے صوبائی قانون کی تشکیل کے لئے اس آئین میں ردّوبدل کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ واضح رہے کہ وفاقی ایچ ی سی کی گورننگ باڈی میں صوبائی جامعات کی نمائندگی کے لئے صوبائی سیکرٹری یا اس کا نما ئندہ شامل ہو تا ہے۔اس کے علاوہ وزیر اعظم کی جانب سے نامزد کردہ ماہر بھی صوبائی توازن کو مد نظر رکھتے ہوئے منتخب کئے جاتے ہیںتاکہ تمام صوبے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں فروغ سے متعلق ترقی ، منصوبوں اور پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے بھرپور اور یکساں طور پرحصہ لے سکیں۔
پہلی دسمبر 2016ء کو اس طویل اندھیرے کے بعد ایک امیدکی کرن نظر آئی ہے ۔لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے کی روشنی میں ایک تاریخی فیصلہ جاری کیا ہے کہ پنجاب اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے لئے گئے اقدامات غیر قانونی تھے ۔اس فیصلے میں بالکل واضح کیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن صوبوں میں تحلیل نہیں ہوا بلکہ اپنی تمام تر خود مختاری کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد میں وفاق کا حصہ ہے ۔ اسکے علاوہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اعلیٰ تعلیمی کیشن کی جانب سے ابھی حال ہی میں پنجاب میں چار شیوخ الجامعہ کی تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے کیونکہ وفاق کے دائرے کار میں وفاقی اعلیٰ تعلیمی کمیشن آئین کے مطابق جامعات سے وابستہ تمام فیصلوں کا مجاز ہے ۔لہٰذا ان چار نجی جامعات کے قائم مقام شیوخ الجامعہ کو فوری طور پر ان جامعات سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عدالت نے پنجاب جامعہ ایکٹ 1973 ء کی دفعہ 14 کو بھی غیر قانونی قرار دیا ہے جس کی رو سے پنجاب حکومت کو شیخ الجامعہ کی تقرری کے لئےبا اختیار قرار دیا گیا ہے۔
بالکل اسی طرح کی پٹیشن سندھ اسمبلی کے فیصلے پر سندھ ایچ ای سی کے قیام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں فروری 2013 ء سے دائر کی ہوئی ہے لیکن افسوس اب تک فیصلہ نہیں ہوا جب کہ تقریباً چار سال گزر چکے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وفاقی ایچ ای سی کے اقدامات سے اعلیٰ تعلیم میں 2002ء سے 2008ء کے دوران ایک انقلاب رونما ہوا تھا۔ ایچ ای سی کے اقدامات کے نتیجے میں جامعات کی رینکنگ میں اچانک انقلاب آیا۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے تمام پروگراموں کوباقاعدگی سے غیر ملکی معزز و مستند ماہرین کی تجزیہ نگاری کے زیر نظر گزرنا پڑتا تھا۔اس سے پہلے کہ سندھ کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کو مزید نقصان پہنچے یہی مناسب وقت ہے کہ اس سے متعلق زیر التوا پٹیشن کا فیصلہ سنا دیا جائے۔
.