• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسداد کرپشن کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر کرپشن کی روک تھام کو یقینی بنانا تھا۔ اسی حوالے سے کراچی میں نیب سندھ اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (ABAAD) نے سی ویو پر ’’کرپشن واک‘‘ کا اہتمام کیا جس میں سول سوسائٹی کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کرپشن کی 40 فیصد شکل رشوت ہے جبکہ کرپشن کی درجہ بندی میں پاکستان 139 ویں درجے سے بہتری پاکر 117 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ کرپشن سے سب سے زیادہ متاثرہ خطوں میں شمالی افریقہ، مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ ورلڈ کرپشن انڈیکس 2015ء کے مطابق صومالیہ دنیا کا کرپٹ ترین ملک ہے جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک دوسرے، امریکہ تیسرے اور ایشیاء پیسفک ممالک چوتھے نمبر پر ہیں تاہم یورپ کو کافی حد تک کرپشن فری خطہ شمار کیا گیا ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے جبکہ عدلیہ، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور پرائیویٹ سیکٹرز بھی کرپشن سے مبرا نہیں۔ ورلڈ بینک اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں اسٹیل ملز، واپڈا، ریلوے، نیشنل انشورنس کارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن سمیت دیگر سرکاری اداروں کے علاوہ مختلف پبلک سیکٹر کے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر میرٹ کے برخلاف نااہل و سفارشی افراد کی بھرتیوں کے باعث یہ ادارے تباہ ہوچکے ہیں جبکہ حکومت ان اداروں کو چلانے کیلئے ہر سال قومی خزانے سے عوام کے تقریباً 500 ارب روپے جھونک رہی ہے۔ اسی طرح سوئس بینکوں کے خفیہ کھاتوں میں کرپٹ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں جبکہ ملک چلانے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے حکومت اب تک 170 کھرب روپے سے زائد اندرونی و بیرونی قرضے حاصل کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی دوروں پر اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ’’آپ کے ملک کے عوام تو غریب ہیں لیکن حکمراں امیر ہیں جنہوں نے غیر قانونی طور پر اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل کئے ہوئے ہیں۔‘‘پاکستان کے سرکاری اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں نچلی سطح پر اپنی اپنی حیثیت سے رشوت لینے کا ایک منظم طریقہ کار ہے جہاں اہلیت کی بجائے رشوت اور سفارش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کرپشن مخالف مہم میں آج کل ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والا ایک دلچسپ اشتہار لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس میں ایک بچہ اسکول میں داخلہ نہ دیئے جانے پر اپنے والد کے سامنے ٹیچر کو 20 روپے کی رشوت کی پیشکش کررہا ہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ یہ میرے والدین کی تربیت و اخلاقی قدروں کا نتیجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ کرپشن کی مخالفت کی ہے۔ میں پاکستان کے مختلف اداروں کا سربراہ رہ چکا ہوں لیکن آج تک میں نے حکومت سے کوئی تنخواہ یا مراعات حاصل نہیں کیں بلکہ اعزازی طور پر اُن اداروں میں خدمات انجام دیں حتیٰ کہ سفری اخراجات بھی خود برداشت کئے جبکہ حکومتی و سیاسی دبائو کے باعث مجھے اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دینا پڑا مگر میں نے ہمیشہ خود کو کرپشن کی لعنت سے پاک رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دور حکومت میں مجھے عزت و مقام سے نوازا۔ نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری کے مطابق پاکستان میں یومیہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے سرکاری ادارے اور حکمراں سالانہ 25 کھرب 55ارب روپے سے زائد کی کرپشن کررہے ہیں۔ اس مٹھی بھر اشرافیہ نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کررکھا ہے، دولت مندوں کی دولت اور عام آدی کی غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کی نصف سے زائد آبادی غربت و افلاس کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور انہیں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صرف پاور سیکٹر میں واپڈا اور وزارت پانی و بجلی کے ماتحت کام کرنے والی ذیلی کمپنیوں میں سالانہ 980 ارب روپے کی بےقاعدگیاں، غبن اور خورد برد سامنے آرہی ہیں جو 4 کھرب روپے کے ملکی بجٹ کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ قومی احتساب بیورو (NAB) اربوں روپے کی کرپشن کے ’’150 میگا کرپشن کیسز‘‘ کی رپور ٹ سپریم کورٹ میں جمع کرواچکی ہے جس میں سے 41مقدمات کی تحقیقات اور 71 مقدمات کی انکوائری کی جارہی ہے جبکہ 38مقدمات کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوائے جاچکے ہیں۔
گزشتہ دنوں ورلڈ اکنامک فورم کا ایک سروے فارم مجھے موصول ہوا جس میں بحیثیت معیشت دان انہوں نے مجھ سے ملکی معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی اور معاشی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں پر تقریباً 100 سے زائد سوال پوچھے تھے جن کا جواب ان شعبوں میں بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے براہ راست ورلڈ اکنامک فورم کے اسلام آباد سیکریٹریٹ کو دینا تھا۔ میرے علاوہ یہ سوالنامے WEF نے کارپوریٹ سیکٹر، معیشت دان اور سینئر بزنس ایگزیکٹوز کو بھی بھجوائے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر نے کرپشن کو بزنس کی ترقی میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ سروے میں بزنس میں حائل ہونے والی 15 رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے پہلے نمبرپرکرپشن، دوسرے نمبرپر سیاسی عدم استحکام، تیسرے نمبر پرحکومت کی غیر تسلسل پالیسیاں، چوتھے نمبر پر حکومت اور بیورو کریسی کی نااہلی، پانچویں نمبر پر جرائم اور امن و امان، چھٹے نمبر پر بینکوں سے قرضوں کا حصول، ساتویں نمبر پر ٹیکسوں کی شرح اور دیگر مسائل میں ملک میں انفرااسٹرکچر کی عدم دستیابی،ان پڑھ اور غیر تربیت یافتہ ورکرز، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں میں کمی،بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور صنعتی اداروں میں حکومتی محکموں کا زیادہ عمل دخل جیسی رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے۔
منی لانڈرنگ کی روک تھام کے باعث دنیا میں کالا دھن رکھنا مشکل بنتا جارہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور دیگر ممالک جو کالے دھن کیلئے محفوظ ترین ملک سمجھے جاتے تھے اور وہ اپنے اکائونٹس ہولڈرز کی تفصیلات بتانے کے پابند نہیں تھے، اب نئے قانون کے مطابق کرپشن اور ٹیکس چوری سے حاصل کی گئی رقوم اکائونٹس میں رکھنا جرم تصور کیا جارہا ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان، بھارت، برازیل، اسپین اور نیپال کے ٹیکس حکام نے اپنے شہریوں کے کالے دھن کھاتوں کی تفصیلات معلوم کرنے کیلئے سوئس حکام سے رابطے شروع کردیئے ہیں جبکہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کے بینکوں نے یکم جنوری 2017ء سے کامن رپورٹنگ اسٹینڈرڈز (CRS) اور OECD کے تحت ایک ملین ڈالر سے زائد کے اکائونٹس کی معلومات امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، پاکستان، بھارت اور CRS معاہدے میں شامل دیگر ممالک کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاناما لیکس کی آف شور کمپنیاں جن کے ذریعے غیر قانونی دولت اور سرمایہ کاری پاکستان سے بیرون ملک منتقلی کی گئی ہے، بھی کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ کرپشن مخالف مہم میں میرا آج کا یہ کالم ادنیٰ سی کوشش ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو کرپشن کی لعنت سے پاک کرنے کیلئے متحد ہوکر کرپشن کے خلاف عوام میں شعور بیدار کیا جائے اور سوشل میڈیا پر کرپٹ افراد کی تشہیر کرکے اُنہیں بے نقاب کیا جائے۔

.
تازہ ترین