اسلام آباد( مہتاب حیدر) بجٹ میں تنخواہ داروں کے ٹیکسوں میں کٹوتی کا اقدام آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہوگا جبکہ ایک کروڑ کی جائیداد خریداری پر ذرائع آمدنی بتانے کا بل موخر کردیا گیا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پہلی بار جائیداد خریدنے والوں کو مستثنیٰ قرار دیدیا، ایسے افراد کی اہلیت کا تعین ’’کافی وسائل‘‘ سے کیا جائے گا، تاہم بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلرز نے 5 کروڑ روپے کی حد مقرر کرنے کی تجویز دی تھی۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ آئی ایم ایف مشن مئی کے دوسرے ہفتے میں بجٹ تجاویز پر تبادلہ خیال کیلئے پاکستان کا دورہ کرے گا۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بریفنگ دی گئی کہ سرکاری وزارتیں اور محکمے کم از کم تنخواہ 37 ہزار پر عمل نہیں کررہے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے ایک کروڑ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری کو قابلِ ٹیکس آمدنی سے مشروط کرنے کے لیے پیش کردہ "ٹیکس لاز ترمیمی بل" فی الحال التواء کا شکار ہو گیا ہے اور اب اسے مالی سال 2025-26 کے آئندہ بجٹ میں شامل کیے جانے پر غور کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات نے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ منظور کرلی، جس کے مطابق اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے بجائے وفاقی حکومت جائیداد کی خریداری پر حد مقرر کرے گی۔
کمیٹی نے نچلے اور متوسط طبقے کو پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے تاکہ پہلی بار جائیداد خریدنے والے افراد متاثر نہ ہوں،ایسے افراد کی اہلیت کا تعین “کافی وسائل” سے کیا جائے گا،بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلرز نے حکومت سے 5 کروڑ روپے کی حد مقرر کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن ذیلی کمیٹی نے اسے بل میں شامل نہیں کیا۔
ایک اور اہم پیش رفت میں، چیئرمین ایف بی آر رشید محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجویز دی جا رہی ہے، تاہم یہ اقدام عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف مشن مئی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کرے گا تاکہ بجٹ تجاویز پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔قومی اسمبلی کی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کی۔ چیئرمین ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی کہ مجوزہ بل کا نظرِ ثانی شدہ مسودہ بجٹ 2025-26 کا حصہ بنایا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے یہ تجویز دی گئی تھی کہ وہ افراد جو گزشتہ پانچ سال کے ٹیکس گوشواروں میں اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتے، انہیں 1 کروڑ روپے سے زائد کی جائیداد خریدنے سے روکا جائے گا۔
ذیلی کمیٹی، جس کے کنوینر بلال اظہر کیانی تھے، کو 21 جنوری 2025 کو تشکیل دیا گیا تھا اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا گیا تھا۔ذیلی کمیٹی کی ہدایت پر ایف بی آر نے مالی سال 2023-24میں جائیدادوں کے لین دین سے متعلق مجموعی ڈیٹا بھی فراہم کیا۔
تجویز میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 114C کی ذیلی دفعہ (1)(ب) میں “بورڈ” کا لفظ حذف کر کے “وفاقی حکومت” سے تبدیل کیا جائے۔ وفاقی حکومت یہ اختیار رکھے گی کہ وہ عام شہریوں، خاص طور پر پہلی بار یا بنیادی رہائشی جائیداد خریدنے والے افراد کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پابندی سے متاثرہ لین دین کے لیے قدر کی حد مقرر کرے۔
ایسے افراد کی اہلیت کا تعین “کافی وسائل” سے کیا جائے گا، جس کا مطلب ہوگا کہ مقامی یا غیر ملکی کرنسی میں ظاہر کردہ نقدی، سونے کی مارکیٹ ویلیو، اسٹاک، بانڈز یا دیگر اثاثوں کی 130 فیصد قدر ظاہر کی گئی ہو۔
اگر کوئی جائیداد ایسے سرمایہ سے خریدی گئی ہو جو پہلے سے گوشوارے میں ظاہر کردہ ہو تو اسے بھی نقدی کے مساوی تسلیم کیا جائے گا۔ذیلی کمیٹی نے سفارش کی کہ جب تک ایف بی آر اپنے آن لائن نظام میں ضروری تکنیکی ترامیم مکمل نہیں کر لیتا، تب تک دفعہ 114C پر قائمہ کمیٹی غور موخر کر دے۔