• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مضبوط موقف اختیار کرنے کی ضرورت.....ملک الطاف حسین

بلاشبہ جنگ میں تباہی اور بربادی ہے لہٰذا ”جنگ“ سے بچنا ہر دانشمند قوم اور محب وطن قیادت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے تاہم ”امن“ کو قائم رکھنے اور آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے بسا اوقات جنگ ہی وہ واحد آپشن ہوتا ہے جس کو اختیار کئے بغیر کوئی وطن سلامت اور کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔پاک بھارت کشیدگی نے بھی اس وقت ایسی صورتحال اختیار کررکھی ہے کہ جس میں بھارتی قیادت امریکہ کی ایماء پر پاکستان کو خوفزدہ کرنے اور اس پر حملہ آور ہونے کے بیان برملا دے رہی ہے حالانکہ ایک ایسا ملک جو جمہوریت کا دعویدار ہے، جس کی قیادت خود کو عقلمند اور تجربہ کار سمجھتی ہے اس کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ممبئی میں ہونے والے حملوں پر اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ کیا جاتا کہ ابھی آپریشن چل رہا تھا اور چلتے آپریشن کے دوران پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔ بہرحال بھارت جو کہتا ہے وہ ضرور کرے کیونکہ جو کچھ وہ کرنا چاہتا ہے ایسا کرنا بھارت کی نیت اور ارادوں میں آج سے نہیں قیام پاکستان کے اول روز سے شامل ہے۔ بھارت کی کسی بھی سرکار نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی قیادت کی ہر دور میں یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ کس طرح پاکستان کو توڑ کر ”اکھنڈ بھارت“ کے خواب کو پورا کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بہت ضروری ہے لہٰذا اگر بھارت جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے بھارت کو میدان جنگ میں خوش آمدید کہیں اور یہ پوری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ بھارت میدان جنگ سے بخیرو عافیت بچ کر نہ جانے پائے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ کیوں ضروری ہے اس کے لئے کسی انکشاف کی ضرورت نہیں بلکہ بھارت اور پاکستان کی61برس کی آزادی کی تاریخ یہ بتانے اور سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ بھارت کے ساتھ جب تک ایک ”فیصلہ کن جنگ“ نہیں لڑی جائے گی اس وقت تک بھارت اپنے ناپاک ارادوں اور مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔ 65ء میں بھارت نے پاکستان پر بلا جواز اور اچانک حملہ کیا۔ 71ء میں مشرقی پاکستان کو فوجی جارحیت سے توڑ دیا گیا۔ 61برس سے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روکا جارہا ہے۔ سیاچن پر بھی بھارتی فوج کے ٹروپس قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ ، لاکھوں محب وطن بنگالی مسلمانوں کا بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے ہاتھوں بے رحمانہ قتل ، 6لاکھ کشمیری مسلمانوں کا بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل ، بابری مسجد سمیت ہزاروں چھوٹی بڑی مساجد کی شہادت جبکہ بھارت کے اندر مسلم کش فسادات ، جن میں لاکھوں مسلمان شہید ہوچکے ہیں بھی ہندو رہنماؤں اور سرکار کی ایک طے شدہ پالیسی رہی ہے تاکہ بھارت کے مسلمانوں کو قیام پاکستان کے حق میں رائے دینے کی سزا ملتی رہے۔اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے مسئلہ کشمیر سمیت جو بھی تنازعات ہیں وہ کبھی بھی سفارتی چینل سے طے نہیں ہوں گے اور نہ ہی امریکہ یا یو این او سمیت عالمی برادری کے کسی فورم پر ان تنازعات کا کوئی حل نکالا جاسکے گا۔ ہر طرف اندھیرا اور دھوکہ ہے۔ مفادات کی جنگ اور بڑی طاقتوں کے دباؤ نے یو این او کو اندھا اور اس کی قراردادوں کو غیرموثر بنادیا ہے جبکہ یہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آپس کے گٹھ جوڑ کے ذریعے مکمل کرنے کیلئے آزاد ممالک اور آزاد اقوام پر حملہ آور ہیں۔ یہ گٹھ جوڑ جس کا روح رواں امریکہ ، برطانیہ، اسرائیل اور بھارت ہیں ان کا موجودہ ہدف پاکستان ہے۔ ہمیں امریکہ اور بھارت کے درمیان کوئی فرق نہیں کرنا چاہئے جبکہ اس بات پر غیرمتزلزل یقین رکھنا چاہئے کہ ہماری آزادی کا ضامن داخلی اتحاد اور اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ہے۔ ہمیں سرحدوں پر کھڑے ہو کر دفاع کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے آگے بڑھ کر بھارت کو للکارنا چاہئے۔ دفاع دروازے پر نہیں میدان میں ہوتا ہے۔ دشمن بزدلوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے۔ بہادر میدان جنگ میں انتظار کرتے ہیں۔ ”جارحانہ پالیسی“ جنگ جیتنے کی پہلی کامیاب کوشش ہوتی ہے۔ حملہ آور کو سنبھلنے کا موقع دینا سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ جنگ اور طاقت کا اظہار ہر دور میں ایک جیسا رہا ہے۔ آج کی مہذب دنیا بھی ظالم اور جارح کو روکنے میں ناکام رہی ہے جو طاقتور ہے وہی پرامن اقوام پر حملہ آور ہے۔ عالمی برادری اور یو این او نے جنگ کے اصول اور طاقت کے استعمال کئے جتنے بھی قوانین اور ضابطے بنائے ہیں ان سب کو سب سے پہلے انہوں نے ہی روند ڈالا ہے کہ جو یو این او اور سلامتی کونسل میں سب سے اونچی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ حکومت پاکستان کو سمجھنا چاہئے کہ مغربی سرحدوں پر امریکہ حملہ آور ہے اور اب مشرقی سرحدوں سے بھارت کو حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ سمندر میں گزشتہ 6 ماہ سے موجود امریکی بحری بیڑہ ”ابراہم لنکن“ بھارتی بحریہ کو سپورٹ دے رہا ہے۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کے دفتر میں ”وار روم“ قائم ہوچکا ہے۔ امریکی جرنیلوں اور دیگر مغربی سفارت کاروں کے اسلام آباد کے تواتر کے ساتھ دورے بھی ایک ایسی سفارتی چال ہے کہ جس میں پاکستان کو دھوکے میں رکھ کر بھارت کے حملے کے لئے وقت اور اہداف کا تعین کرنا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے۔ بھارت پاکستان پر ضرور حملہ کرے گا۔ حملے کیلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کا انتظار کیا جا رہا ہو۔ امریکہ ہر صورت میں افغانستان کی جنگ جیتنا اور پاکستان کے ایٹمی اثاثے تباہ کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ دونوں اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اس لئے وہ (امریکہ) بھارت کی پشت پر کھڑے ہو کر پاکستان کے ساتھ ”پراکسی وار“ لڑنا چاہتا ہے تاہم ایک زندہ اور غیرت مند قوم کے سامنے ہنود، یہود اور نصاریٰ کے مذکورہ اتحاد کو شرمناک شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان کا بدلہ جموں و کشمیر کی آزادی اور الحاق پاکستان ہے۔ کشمیر جب تک آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا، پاکستان غیرمحفوظ رہے گا۔ پاکستان کی ترقی اور استحکام کیلئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پاکستان میں شمولیت انتہائی ضروری ہے جبکہ یہ کامیابی یو این او کی قراردادوں کو دہرانے اور امریکی صدر کی یقین دہانیوں سے نہیں ملے گی اس کے لئے ایک زبردست جنگ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی جنگ جس کے دھوئیں میں بھارت کو اپنا وجود تلاش کرنے میں پھر سے صدیاں بیت جائیں۔ محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان اور محمود غزنوی کی تاریخ دہرانے کی ضرورت ہے۔ راجہ عزیز بھٹی اور کرنل شیر جیسے شیروں کی یاد کو تازہ کرنے کا وقت ہے۔ جنرل ایوب خان جیسا کلمہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ عزیز ہم وطنوں آگے بڑھو اور دشمن کو بتادو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جو لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والی ہے۔ اللہ ہمیں فتح اور عزت نصیب فرمائے، آمین ثم آمین
تازہ ترین