بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے، بھارت اور پاکستان نے ایک ہی سرزمین پر جنم لیا، صدیوں ہم ہندوستان میں ایک ساتھ رہتے رہے، کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر بادشاہوں اور راجاؤں کے دربار تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اور مشورے دیتے رہے، بھارت کی سرزمین پر ہمارے اسلاف کے مزار اور مسجدوں کے مینار بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم بھارت کیلئے اور بھارت ہمارے لئے اجنبی نہیں۔ 20 کروڑ مسلمان جو دنیا کے کسی بھی آزاد مسلم ملک کی آبادی سے کہیں زیادہ ہیں ان کا بھارت کا شہری ہونا بھی بہت اہم ہے … اسی طرح سے پاکستان کے اندر بالخصوص صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ایک بہت بڑی ہندو آبادی کا موجود رہنا اور خصوصاً کاروبار پر چھائے رہنا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ بھارت کیلئے پاکستان کے اندر کوئی مذہبی تعصب یا نفرت موجود نہیں۔ آج بھی واہگہ بارڈر کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وہاں سے سب سے زیادہ ہندو خاندان اور تاجر گزرتے ہیں کہ جن کا کاروبار پاکستان میں ہے مگر خاندان کی اکثریت سمیت جائداد اور ملکیت زیادہ تر بھارت کے شہروں میں ہے۔ بھارت کے اداکاروں، دانشوروں، سیاستدانوں اور حکمرانوں تک پاکستان کے ساتھ مختلف سطح پر کسی نہ کسی طرح سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات اور رابطہ رہا ہے … علاوہ ازیں اسٹرٹیجک صورتحال بھی بھارت پاکستان کی کچھ اس طرح سے ہے کہ یہ دونوں ملک ایٹمی طاقت اور ملٹری پاور ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی پوزیشن میں نہیں تاہم یہ بات بھی طے ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جب تک کشیدگی کی تمام وجوہات ختم نہیں ہو جاتیں اس وقت تک خطہ میں استحکام پیدا نہیں ہو گا، نیو دہلی اور اسلام آباد میں موجود حکمران اور سفارتکار مفاہمت کے کتنے ہی معاہدوں پر دستخط کر لیں جب تک کشیدگی کے بنیادی اسباب کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ” امن عمل “ کو کوئی ایک ” ہینڈ گرنیڈ “ بھی تباہ کر سکتا ہے لہٰذا دانشمندی، دور اندیشی اور دونوں ملکوں کا وسیع تر مفاد تو اسی میں تھا اور ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو ” مثالی دوستی “ میں تبدیل کرنے کیلئے بنیادی تنازع جو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے یعنی ” مسئلہ کشمیر “ کا کوئی حقیقی اور پائیدار حل نکالا جاتا … مگر 61 برس سے ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ پاکستان پر دو مرتبہ حملہ کرنے، مشرقی پاکستان کو توڑنے اور مقبوضہ وادی پر بدستور غیر قانونی قبضہ جمائے رکھنے کے علاوہ سیاہ چن اور بگلیہار ڈیم سمیت پاکستان کیلئے مسائل اور مشکلات پیدا کرنے میں بھارت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ تازہ ترین صورت حال میں پاکستانی شہری جو کہ ویزے پر بھارت جاتے ہیں ان کا وہاں کی ایجنسیوں کے ذریعے اغواء اور لاپتہ کر دینا، جھوٹے مقدمات کے ذریعے قید کرنے والے پاکستانیوں کو تشدد کے ذریعے ہلاک کرنے جیسے ظالمانہ واقعات، افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے اور عملے پر حملوں کی منصوبہ بندی سمیت ” را “ کا بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کرنا، پاکستان مخالف قوتوں کے کارکنوں کو تربیت اور سرمایہ فراہم کرنا، کراچی میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کیلئے اس کے ایجنٹوں کا متحرک ہو جانا، امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں اور منصوبہ بندی کرتے رہنا، ڈس انفارمیشن اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے آئی ایس آئی سمیت اسلامی اور جہادی تنظیموں کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا، حکومت پاکستان کو دھوکے اور دباؤ میں رکھنے کی پالیسی اختیار کئے رکھنا ایک ایسے پڑوسی ملک کیلئے مناسب نہیں کہ جس کا ماضی اور جغرافیہ ہم سے جدا نہیں … حقیقت یہ ہے کہ اگر پوری دیانت داری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو بھارت اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے تمام امکانات اور مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں سے اگر کوئی ایک ملک بھی عدم استحکام کا شکار ہو گا تو اس سے لازمی طور پر دوسرا ملک بھی متاثر ہو گا۔ممبئی میں ہونے والے حالیہ واقعات پر جس قدر افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ کاش کہ ایسا نہ ہوتا مگر ایسا ہو جانے کے بعد اب کیا ہو اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے گوکہ اس سارے سانحہ، واقع یا دہشت گردی کی ضرور تحقیقات ہونی چاہئے۔ معلومات کا تبادلہ اور جرم کے تمام پس پردہ کرداروں تک قانون کا آہنی ہاتھ ضرور پہنچنا چاہئے، مگر یہ سب کچھ ناکافی ہو گا جب تک ان تمام ممکنہ وجوہات اور اسباب کو ختم نہیں کر دیا جاتا جو اس طرح کی کارروائی کے مختلف امکانات میں سے ایک امکان ہو سکتا ہے۔ بھارتی سرکار اگریہ سمجھتی ہے کہ بلیک کیٹ کمانڈوز اور را کا کاؤنٹرونگ کافی ہے یا یہ کہ حکومت پاکستان کو دھمکیوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے خوفزدہ کر کے اس کے لئے مسائل اور مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں تو ہمارے خیال میں ایسا سوچنا یا کرنا درست اور فائدہ مند نہیں ہو گا۔(جاری ہے)