ہمارے چند ماہ قبل ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کو ہماری سیم زدہ تاریخ کے دیگر جنرلوں سے بہتر خیال کیا گیا تھا کیونکہ اُنھوں نے ایسے دلیرانہ فیصلے کئے جن سے دوسرے خائف تھے، چنانچہ اُنہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ عام افراد کے ہیرو تھے، ٹرک ڈرائیورز نے اُن کی تصاویر اپنی گاڑیوں کے پیچھے لگا لیں، جبکہ مجھ جیسے گفتار کے غازیوں نے اپنے آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر تبدیلی کے خواب دیکھتے ہوئے اس خیال کو ارزاں کرنا شروع کردیا کہ دہشت گردی کی شکست کے بعد قومی اصطبل کی صفائی ہوجائے گی۔ لبرل طبقے کی ایک اپنی رائے، اور اس کے پیروکاروں نے فوج کی کارکردگی کے سامنے سولینز کو ماند پڑتے دیکھنا پسند نہ کیا۔ لیکن جب فاٹا کو طالبان اور کراچی کو ایم کیو ایم کی گرفت سے آزاد ی ملی توجمہوریت کے ان چیمپئز کے پاس دانت بھینچ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب آرمی چیف کی مدتِ ملازمت تمام ہوئی تو اُن کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں اور فورسز کی حاصل کردہ کامیابیوں میں خامی تلاش کرنے کا سلسلہ چل نکلا۔
تاہم جس طرح جنرل صاحب نے ہرکولیس کی سی طاقت اور مہارت دکھاتے ہوئے خود ہی کیچڑ بھرے تالاب میں چھلانگ لگا لی ہے، اس کا عطائی نقاد تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اب یہ خبر، جو کوئی افواہ نہیں رہی کہ موصوف سعودی حکومت کے ماتحت فرائض سرانجام دینے جا رہے ہیں، نے اُن کا گزشتہ تین سال کے دوران قائم ہونے والا امیج چکنا چور کردیا ہے۔ وہ جس ’’اسلامک ملٹری آلائنس‘‘ کی قیادت سنبھالنے جا رہے ہیں، وہ ایک اساطیری تنظیم کے سوا کچھ نہیں۔ کم از کم اُس کا زمین، بلکہ کاغذ پر بھی کوئی وجود نہیں۔ برادر عرب ملک کی طاقتور چیک بک سفارت کاری کے سامنے ضرورت مند مسلم اقوام سرِ تسلیم خم کر دیتی ہیں، اور تجربات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد جوہری طاقت اور میزائلوں کی بھاری کھیپ رکھنے والے اس اسلامی جمہوریہ، جو وارفتگی کے عالم میں خود کو اسلام کا قلعہ بھی قرار دیتی ہے، سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں۔ تاہم احترام ایک چیز، عملی طور پر وہاں جانا دوسری بات ہے۔ حتیٰ کے مقامات مقدسہ کے نگہبانوں کے سامنے ادب سے سرجھکانے والے بھی سعودی کمان میں زمینی دستے بھجوانے پر معترض ہوں گے، اور اسے ٹالنے کا کوئی بہانہ تلاش کریں گے، چاہے اُن دستوں نے نشانِ امتیاز پانے والے جنرل راحیل شریف کی کمان میں ہی کیوں نہ لڑنا ہو۔ بہت سے ایسے اسلامی ممالک ہیں جو عرب بھائیوں کو ناراض نہیں ہونے دیتے ہیں لیکن کوئی بھی وہاں فوجی دستے یا ہتھیار نہیں بھجوا رہا۔ تو پھر جنرل راحیل شریف کس صحرائی فوج کی قیادت کرنے جارہے ہیں؟
کیا ہم پاکستانی انتہائی کم عقل ہیں جن کے لئے یہ سمجھنا مشکل کہ مشرقِ وسطیٰ میں کیا ہو رہا ہے اور وہاں کس قسم کی جنگیں لڑی جار ہی ہیں؟ سعودیوں کا کہنا ہے کہ اُن کا چونتیس ممالک پر مشتمل دفاعی الائنس دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے ہے۔ یا مظہر العجائب! ابہام کی دھند میں دہشت گردی بھی خوبصورتی کی طرح دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ جس چیز کو سعودی، قطری اور امارتی ایک بات سمجھتے ہیں، وہ ایران، حزب اﷲ اور روس کے لئے دوسری بات ہے۔ اس سلگتے ہوئے خطے، جہاں معاشرے تباہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد دیگر خطوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور، میں جنگی خطوط اتنے گنجلک ہیں کہ ایک ملک کے دہشت گرد دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ یمن کے حوثی سعودیوں کے لیے دہشت گرد لیکن ایران اُنہیں مظلوم، چنانچہ مدد کا مستحق سمجھتا ہے۔ شام میں سعودی عرب اور قطر اسد مخالف قوتوں کے ساتھ ہیں، لیکن ایران اور حزب اﷲ اسد کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اُن کی مدد کے بعد وہ اب تک دمشق میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ عراق میں ایران اور بغداد کی حکومت کے لیے اہم ترین مسئلہ داعش ہے، جبکہ سعودیوں کے لئے اہم ترین مسئلہ داعش نہیں بلکہ خطے میں بڑھتا ہوا شیعہ اثر و رسوخ اور بغداد حکومت کا ایران کی طرف جھکائو ہے۔
ان تمام معاملات میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی دنیا دہشت گردی کے خلاف کوئی متفقہ الائنس تشکیل دے ہی نہیں سکتی۔ اس کی بجائے اسلامی دنیا ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ کے نقشے پر دو اہم آلائنس ہیں، ایک کی قیادت سعودی عرب، جبکہ دوسرے کی ایران کررہا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی متصل نقطہ نہیں۔ چنانچہ غازی جنرل کو خود کو یا پاکستانی قوم کو بے وقوف نہیں بنانا چاہئے۔ اگر وہ وہاں انتہائی پرکشش مشاہرے پر جاتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ایک ایسی فورس کی کمان ہو جو اپنا وجود ہی نہیں رکھتی تو پھر اُن کا وہاں جانا کسی اتحاد یا پاکستان کی توقیر کی علامت نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے وہ محض سعودی مفادات کو آگے بڑھاتے دکھائی دیں گے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں یہ افسوس ناک تاثر، جو پہلے سے ہی موجود ہے، تقویت پائے گا کہ اس کے تابندہ ترین ستارے بھی رقم کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
بہرحال جنرل صاحب اپنے مفاد کی بابت خود فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اگر وہ سوچتے ہیں کہ سرزمینِ مقدس پر فرائض کی انجام دہی کا اُنہیں فائدہ ہوسکتا ہے تو ٹھیک۔ کوئی بات نہیں، تصورات کا ایک اور محل چکنا چور ہوا۔ گفتار کے غازیوں کے سیکھنے کا ایک اورسبق کہ اس طرح کے شارٹ کٹ سے کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کا راستہ بہت طویل ہوتا ہے، اور ہم پاکستان میں اس کے لئے تیار بھی نہیں۔ ہمارے پاس اس کے لئے استقامت، بلکہ ارادے کی کمی ہے۔ ہم محض باتوں سے خواہشات کے محل تعمیر کرسکتے ہیں۔ غازی جنرل کی مقدس سرزمین کی طرف پیش رفت سے ایک اور خیال تقویت پاتا ہے کہ افسروں اور جوانوں نے فاٹا میں اسلامی جہادیوں، جو پاکستان کی بنیادوں کے لئے خطرہ بن چکے تھے، کے خلاف جو بھی قربانیاں دیں، کے باوجود پاک فوج بہرحال ایک قدامت پسند ادارہ ہے جو صرف انتہائی ہنگامی حالات میں ہی رد ِعمل کا اظہار کرتا ہے۔ افغان جہاد سے لے کر نائن الیون تک یہی رجحان غالب دکھائی دیتا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہم چیک بک سفارت کاروں کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے یمن جنگ کاحصہ نہیں بنے، لیکن گمان ہے کہ اب غازی جنرل صاحب ’’کھوئے ہوئے موقع کی تلافی‘‘ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ایک اور پریشان کن سوچ، ’’کرائے کا سپاہی‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اگر میں نظریات کی بنیاد پر داعش یا حز ب اﷲ کے لئے لڑتا ہوں تو درست یا غلط، میں نظریاتی ہوں، لیکن اگر میری خدمات ہر اُس کے لیے ہوں جو ادائیگی کر سکے تو کیا میں کرائے کا سپاہی نہیں بن جائوں گا؟ یہاں ٹالسٹائی کا اٹھایا گیا سوال برمحل۔ ایک انسان کو کتنی زمین درکار ہوتی ہے؟ ایک تھری اسٹار جنرل، ایڈمرل یا ائیرچیف کو قانونی طور پر بہت سی مراعات اور پلاٹ وغیرہ مل جاتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنا سکتے ہیں۔ لیکن پھر ہمارے ریٹائرڈ افسران مزید وسائل کے حصول کے لئے اتنے بے چین کیوں ہو جاتے ہیں؟
میں یہ بات متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ فوج کو طالبان کی یادگار تعمیر کرنی چاہئے کیونکہ اُنھوں نے فوج کو لڑنے کا بھولا ہوا فن یاد دلا دیا۔ یاد رہے، ہم نے یہ جنگ خود نہیں کی، تحریکِ طالبان پاکستان نے ہم پر مسلط کی تھی۔ اگر آج ہماری فوج ایک جنگ آزما فورس ہے تو اس کی وجہ یہ کہ جنگ سے مفر ممکن نہ تھا۔ تاہم اعلیٰ افسران اپنی پرانی ڈگر ترک کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کی ہائوسنگ کالونیوں اور ان کے شاہانہ رہن سہن سے اس کا برملا اظہار ہوتا ہے۔ کیا ان کا دنیا کے عظیم جرنیلوں، یا مصطفیٰ کمال سے موازنہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا مصطفیٰ کمال کسی بادشاہت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے؟ کیا پاکستان کے پانی یا مٹی میں کوئی خرابی ہے؟
.