• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں کو پارلیمنٹ سے توسیع ملنے کا کوئی امکان نہیں

اسلام آباد(طارق بٹ)فوجی عدالتوں کو سویلین کے دہشت گردی کے الزام میں مقدمات چلانے کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ کچھ نمایاں سیاسی جماعتوں نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام(ف) پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کی توسیع کے خلاف اصولی مخالف بن کر ابھری ہیں، فوجی عدالتیں دو برس کےلئے قائم کی گئی تھیںجن کی مدت سات جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ قانونی برادری بھی انصاف کی فراہمی کےلئے کسی بھی قسم کے خصوصی طریقے کے خلاف ہے۔ ان کے خیال میں فوجی عدالتیں شفاف اور منصفانہ انداز میں انصاف فراہم کرنے کے لئے معقول عدالتی فورمز نہیں ہیں۔ فوجی عدا لتوں سے سویلینز کے خلاف مقدمات چلانے کی مزید اجازت دی گئی تو توقع ہے کہ وکلا باہر نکل آئیں گے، ان عدالتوں میں فوجی افسران ان کیمرا کارروائی کرتے ہیں۔ وکلا صفائی بھی عام طور پر ان کے کام سے متعلق بہت زیادہ شکایات کرتے ہیں اور یہ الزام لگاتے ہیں کہ ملزم کے خلاف مقدمہ منصفانہ طور پر نہیں چل پاتا۔ پاکستان تحریک انصاف جو عام طور پر حکومت کے ہر اقدام اور تجویز کی سختی سے مخالفت کرتی ہے، نے بھی اس سرکاری اقدام کو مسترد نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کی توسیع کی منظوری کے مکمل طور پر خلاف نہیں ہے۔ آئین میں 21 ویں ترمیم پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے پیش نظر خاص طور پر متعارف کرائی گئی تھی تاکہ سویلین دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جاسکیں۔ اس ترمیم یہ شق شامل تھی کہ دو برس کے اختتام پر یہ عدالتیں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔ اس وقت نواز شریف حکومت نے بھی کڑوی گولی کے طور پر اس معاملے میں سفارشات قبول کرلی تھیں۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے گہرے تحفظات کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر ترمیم متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دہشتگردوں نے اس وقت پاکستان کو ہلاکر رکھا ہوا تھا اور ان سے فیصلہ کن انداز میں نمٹنے کی ضرورت تھی۔ مزید یہ کہ اس وقت کا مجموعی ماحول موجودہ ماحول سے قطعی مختلف تھا۔ اب دہشت گرد بڑی حد تک ختم ہوچکےہیں تاہم ان کی جانب سے بدستور خطرہ موجود ہے۔ حکومت نے متفقہ فیصلے تک پہنچنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو راضی کرنے کی ابتدائی کوشش کی ہے لیکن اسے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق کی جانب سے طلب کیا جانے والا پار لیما نی پارٹیوں کا اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوچکا ہے۔ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور نہیں کرسکتی۔یہ کام اس وقت اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب اس کی اپنی اتحادی جماعت جے یو آئی ف، ترمیم کی مخالفت کر رہی ہو۔ قومی اسمبلی میں حکومت کی پوزیشن کہیں بہتر ہےلیکن اس کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ سینیٹ میں وہ واضح طورپر اقلیت میں ہے۔ تاہم خیال یہ ہے کہ اگر حکومت پوری کوشش کرے کہ فوجی عدالتوں کی مزید توسیع ہوجائے اور کچھ سیاسی جماعتیں اس پر اتفاق بھی کر لیں تب بھی وہ ملزم کے خلاف منصفانہ کاروائی کے لئے سخت پابندیاں لگانے کا مطالبہ کریں گی۔ مثال کے طور پر وہ یہ مطالبہ کرسکتی ہیں کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کو ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ فوجی عدالتوں کی دو برس کی مدت ختم ہونے کے بعد تمام زیر التوا مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل ہوچکے ہیں۔ کسی شک و شبے کے بغیر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عام عدالتوں اوریہاں تک کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھی دہشت گردی سمیت سنگین جرائم پر اتنی تیزی سے فیصلہ نہیں ہوتا جنتا فوجی عدالتوں میں ہوتاہے۔ یہ تاخیر ان وجوہات میں سے ایک تھی جس کی بنا پر سویلین دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ ایسے مقدمات کے فیصلوں کے بعد بھی اعلی عدالتوں میں طویل عرصے تک اپیلیں رکی رہتی ہیں۔ 
تازہ ترین