(گزشتہ سے پیوستہ)
اس طرح سے نہ تو پاکستان بلیک میل ہو گا اور نہ ہی بھارت محفوظ رہ سکے گا۔ بھارت اور پاکستان کی سلامتی کا انحصار ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر ہے۔ مگر کھوکھلے دعوؤں اور مصنوعی اقدامات سے ” اعتماد “ بحال نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے پاس ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ بھارت کے اندر ایک درجن سے زائد چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کو کنٹرول کرے، یہ کام بھارتی سرکار ہی کا ہے۔مسئلہ کشمیر پاکستان کا پیدا کردہ نہیں بلکہ بھارت کا کھڑا کیا ہوا مسئلہ ہے اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے انتظامات ہونے چاہئیں۔ مشرقی پاکستان توڑنا اور مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھنا بھارت کا کوئی ایسا تعارف نہیں کہ جس سے اسے ایک اچھا پڑوسی اور عدم جارحیت کا حامی ملک قرار دیا جائے۔ بھارت جن مسائل اور مشکلات میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے ان میں کسی بھی پڑوسی ملک کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ بھارت کا خطہ پر بالادستی حاصل کرنے کا رجحان ہی اس کی پریشانیوں کا سبب بن رہا ہے۔ بھارت اسلحہ کے ڈھیر دن بدن اتنے اونچے کرتا جا رہا ہے کہ جن کی چوٹی پر بیٹھے بھارت کو گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد کا پیروکار نہیں کہا جاسکتا۔ بھارت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے سب سے پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ بھارت، امریکہ اور برطانیہ کی طرح طاقتور یاسات سمندر دور نہیں کہ وہ بہت کچھ کرے گا اور پھر بھاگ جائے گا بلکہ بھارت سمیت جنوبی ایشیا میں موجود جو کوئی ملک جارحانہ اور غاصبانہ پالیسی اپنائے گا تو اسے یقینا مزاحمت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ بھارتی سرکار کو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ یہ تینوں ممالک ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ یہ ممالک اس پورے خطہ کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں اور وہ یہ کام بھارت کی مدد سے کرنا چاہتے ہیں، اب بھارتی سرکار کو سوچنا ہو گا کہ دور کے چوروں کے ساتھ مل کر پڑوسیوں کی چوری کرنے کے نتائج اور نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو آبادی اور جمہوریت میں دوسرے نمبر پر مگر فسادات میں پہلے نمبر پر ہے۔ بھارت کی داخلی آبادی تقسیم در تقسیم کے مرحلوں سے گزر رہی ہے جبکہ ہیروں کی دکانوں سے لے کر فلمی ستاروں تک انڈر ورلڈ کے ڈان سرگرم ہیں۔ یہ تمام صورت حال بھارت کے ہوٹلوں سے لے کر کچی آبادی کی جھونپڑیوں تک کہیں پر بھی اور کسی بھی وقت دھماکہ خیز ہو سکتی ہے … لہٰذا تمام بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بھارت کو ” امن کی دیوی “ بنانے کیلئے ترشول لہرانے اور خنجر گھونپنے کی پالیسی ترک کر دے۔ مسجدیں گرانے اور مندر بنانے سے بھارت کا سیکولر چہرہ بھیانک اور مکروہ ہو جائے گا۔ جھوٹ اور پروپیگنڈا بھارت کی اخلاقی ساکھ کو تباہ اور اس کے سیاسی و جمہوری ڈھانچے کو زمین بوس کر دے گا۔ جمہوریت بلاشبہ بھارت میں سر تا پا لباس پہنے ہوئے ہے، اس کے برہنہ ہونے کا بھی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ بھارت جمہوریت کی چھتری سے اگر اپنا سر ڈھانپنا اور دوسروں کا سر پھوڑنا چاہے گا تو ایسی جمہوریت خود بھارت کو بھی کبھی کسی بڑے حادثہ سے دوچار کر سکتی ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کی قیادت اور نقشہ کئی بار تبدیل ہوتے رہے۔ محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور قائداعظم نے ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اس نقصان کو روکا کہ جو ” ہندو قیادت “ اس دھرتی پر بسنے والے مختلف قومیتوں کے حامل افراد اور مذاہب کو پہنچا رہی تھی۔ آج بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک اور سید علی گیلانی بھارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے اور نہ ہی سید صلاح الدین اور قاضی حسین احمد کوئی غلط مشورہ دے رہے ہیں بلکہ بھارت کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ وہ سامنے کی دیوار پر لکھا پڑھ لے کہ جسے نہ پڑھنے کا نقصان سوائے سر پھوڑنے کے کچھ نہیں ہو گا۔امید ہے بھارتی دانشور، سیاستدان اور حکمران ہماری ان گزارشات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی اور خطہ میں پائیدار امن کیلئے مدبرانہ اور جرأت مندانہ فیصلہ کریں گے۔