• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ باعث ِاطمینان ہے کہ طیبہ کا مسئلہ سپریم کورٹ میں آجانے کے بعد اسے انصاف مل جائے گا، ذرائع ابلاغ میں اس مظلوم بچی کی متاثر کن تشہیر کے بعد اس کیلئے تعلیم اور کفالت کی راہ بھی کھل جائے گی۔ اعلیٰ ترین عدالت انصاف کے از خود نوٹس کے بعد بھی یہ انصاف ابھی ادھورا ہے، سارے میڈیا کی کئی دنوں تک تشہیر اور ہاہاکار کے بعد صرف ایک مظلوم کی اشک شوئی کا امکان پیدا ہوا ہے جبکہ تعلیم کے مستحق تین کروڑ (شاید اس سے بھی زیادہ) بچے اسکول کی راہ نہیں پا سکتے، طیبہ کی طرح لاکھوں بچیاں، کھیل کود اور اسکول جانے کی عمر میں زرخرید غلاموں کی طرح تشدد سہتے ہوئے جبری مشقت اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔ بچوں کی مزدوری، جبری مشقت اور زیادتی میں بچوں اور بچیوں میں کوئی تخصیص نہیں، دونوں خود کفالتی اور والدین کی مدد کیلئے ایسا کرنے پر مجبور ہیں، ان سب کی رسائی عدالت عظمیٰ تک ہونا ممکن نہیں، نہ ہی ’’چین سے بیٹھنے والوں کے کان پر جوں رینگتی ہے‘‘۔ جنگ کے میدانوں میں سپاہ کھلے آسمان تلے ہوتی ہیں، دشمن کے حملے سے دفاع کا خاطر خواہ بندوبست رکھتی ہیں لیکن مچھروں اور حشرات سے بچائو کیلئے بندوبست دشوار تر ہے، جنگ کے میدان میں مرنے والوں کے مقابلے میں مچھر کے کاٹے سے پھیلنے والے ملیریا اور دوسری بیماریوں میں مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بلکہ کئی گنا۔ پھر بھی مچھروں اور مکھیوں کو تلف کرنے کیلئے توپ کے گولے نہیں چلائے جاتے بلکہ ان کے لئے الگ بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس خیال سے کہ مچھر اور مکھیاں دشمن کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیز ہیں اس لئے ان سے نمٹنے کیلئے گولے داغے جائیں تو مخالف سپاہ کا سامنا ہونے تک خالی توپیں رہ جائیں گی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کو اسلام آباد میں ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر بچی طیبہ کے تشدد کا نشانہ بننے اور جلائے جانے کا نوٹس لینا پڑا، اس لئے کہ انصاف کے ادارے اور ان کے معاون بچی کو انصاف دینے کی بجائے اس پر ظلم کرنے والوں کی مدد کرنے لگے تھے، اسی طرح فاضل چیف جسٹس نے گھوٹکی میں تین سالہ بچی کو ’’ونی‘‘ کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، جرگے کی تفصیلات طلب کی ہیں، بچوں پر تشدد اور ’’ونی‘‘ کرنے کا مکروہ فعل کوئی اکا دکا واقعہ نہیں، روز کا معمول ہیں اور ان سنگین واقعات کے تدارک کیلئے مؤثر نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس صرف انہی واقعات کا نوٹس لے سکتے ہیں جو کسی مظلوم کی خوش قسمتی سے ان کے نوٹس میں آجائیں، روزانہ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ظہور میں آتے ہیں، ان کا تدارک کون کرے گا؟ گزشتہ جمعرات سپریم کورٹ کے فاضل جج جناب دوست محمد کھوسہ نے ایک مقدمے میں کہا کہ بڑے افسر کا ماتحت جرم یا بدعنوانی کا مرتکب ہو تو اس کا اعلیٰ افسر بھی اس کا ذمہ دار ہو گا۔ انہوں نے یہ جملے اڈیالہ جیل میں تعینات لیڈی کانسٹیبل کو بدعنوانی کی وجہ سے ہٹائے جانے کے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے کا اعلیٰ افسر ہی نظام کو درست طریقے سے چلانے کا ذمہ دار ہے، اسے ہر وقت چوکس اور معاملے پر نظر رکھنا ہوتی ہے، دائرہ اختیار کے سبھی شعبوں میں مستعد، قابل اور پیشہ ور لوگوں کا انتخاب اور کام کی نگرانی اس کی ذمہ داری ہے اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو باز پرس کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے حادثے کے بعد وزیر یا اعلیٰ عہدیدار مستعفی ہو جاتے ہیں، کابینہ کے ایک وزیر یا وزیراعظم کی خطا پر ساری کابینہ کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ دنیا بھر کی حکومتوں اور دیگر اداروں کا مانا ہوا اصول ہے اور پوری دنیا میں (ماسوائے پاکستان) اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس اصول کو اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج جناب راجہ خرم کے معاملے میں نافذ کیا جائے تو کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں، راجہ خرم علی، اسلام آباد ضلع کچہری میں کرسی انصاف پر بیٹھتے ہیں، ان کے گھر میں آٹھ سالہ بچی ملازم ہے(جو آج دس سال کی ہو چکی ہے) کیونکہ اس کے والدین کو پیشگی رقم دی گئی ہے اس لئے وہ جبری مشقت پر مجبور ہے، اس پر آئے دن تشدد ہوتا ہے، اس کی دلدوز چیخوں اور آہ و بکا سے اہل محلہ دل تھام کے رہ جاتے ہیں، وہ بچی کی مدد کیلئے آتے ہیں وہ جج صاحب گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے اور نہ ہی اپنی بیوی کو ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں، چنانچہ بیگم صاحبہ اپنی اذیت پسندی کی تسکین کے لئے صرف ایک جھاڑو گم ہو جانے کی پاداش میں بچی کے دونوں ہاتھ جلتے چولہے پر رکھ دیتی ہیں، ہاتھ جلانے پر بھی بس نہیں، اس کی کنپٹی پر ڈنڈے کی ضرب لگاتی ہیں، جس سے خون کا فوارہ بہہ نکلتا ہے۔ آنکھ بھی سوج کر کپا بن جاتی ہے، کوئی شنوائی ممکن نہیں لیکن کسی وجہ سے بچی کی تصویر سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ٹیلی وژن اور اخبارات تک پہنچ کر تشہیر کا باعث بنتی ہے۔ اشک شوئی یا توجہ ہٹانے کیلئے مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے، چھوٹے سے گائوں اسلام آباد پر حکمران وزیرداخلہ اور ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے المیہ کا نوٹس لینے کے شوقین وزیراعظم پھر بھی خاموش رہتے ہیں، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں، خود وکیلوں کی انجمنیں دم سادھے رہتی ہیں۔ مقدمہ درج کرنے والے تھانے کا پولیس انسپکٹر، مظلوم لڑکی کے زخموں کا معائنہ کرکے رپورٹ کرنے والے ڈاکٹر، مقدمہ سننے والا مجسٹریٹ، ضمانت کو منظور کرنے والا ایڈیشنل سیشن جج، سارے کے سارے مظلوم، مضروب، غریب، کمسن بچی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے، اثر و رسوخ رکھنے والے راجہ خرم علی اور ان کی اذیت پسند بیگم صاحبہ کا ’’بال بیکا‘‘ ہونے سے بچانے میں جت جاتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس اور کچہری اور اپنے ’’پیٹی بھائی‘‘ کو بچانے میں لگے رہے مگر وہ ڈاکٹر جو دکھی انسانیت کی خدمت کا عزم اور حلف لے کر آتے ہیں وہ بھی اندھے تھے کیا؟ ؎
زخم گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی؟
جسٹس دوست محمد کھوسہ کے ریمارکس کی روشنی میں صرف طیبہ پر تشدد کے معاملے کو جس طرح نمٹانے اور مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی، اس میں ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی تو فریق ہوئے لیکن جس سنگ دلی کا مظاہرہ پولیس، مجسٹریٹ، ضمانت منظور کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج، معائنہ کرنے والے ڈاکٹر اور مظلوم لڑکی کے نام نہاد وکیل راجہ ظہور نے کیا، اس پر اسلام آباد کچہری کے سیشن جج، اسلام آباد ہائیکورٹ، وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد، اسپتال کے ایم ایس اور محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران پر بھی کوئی ذمہ داری عائد کی جائے گی یا نہیں؟
کیا وکیل، تھانیدار، مجسٹریٹ، غلط رپورٹ لکھنے والے ڈاکٹرز بھی اس ازخود نوٹس کے نتیجے میں اپنا بویا کاٹیں گے؟ سپریم کورٹ کا از خود نوٹس قابل تحسین ہونے کے باوجود باعث تشویش بھی ہے، اس لئے کہ سپریم کورٹ ہر مسئلے، ہر مقدمے اور ہر المیے کا نوٹس نہیں لے سکتی، سپریم کورٹ کی براہ راست مداخلت کے بغیر انصاف کی سب راہیں مسدود ہیں، گھوٹکی میں تین سالہ لڑکی کا ’’ونی‘‘ ہونا، اسلام آباد میں طیبہ پر تشدد کے بعد ہونے والے واقعات اس پر واضح دلیل ہیں۔ اپنی ماتحت عدلیہ اور انصاف کے مددگار اداروں کی کم کوشی، ناکامی اور بدعنوانی کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اعلیٰ عدالتی اداروں کو بھی انصاف میں ناکامی اور تاخیر پر اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنے کیلئے جسٹس کھوسہ سے رہنمائی لینی چاہئے۔

.
تازہ ترین