• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معیشت کو نرم یا پابند کرنے کے مباحث، ڈالر کی قدر کے عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے نتائج کے جائزے اور معاشی عالمگیریت کی وسعت و تحدیدیت کے اندازے عالمی افق پر نظر آنے والی وہ پرچھائیاں ہیں جن کے تناظر میں 17جنوری 2017کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں 47ویں سالانہ عالمی اقتصادی کانفرنس کا آغاز ہوا۔ ورلڈ اکنامک فورم (جسے 1987تک یورپین مینجمنٹ فورم کے نام سے جانا جاتا تھا) کے تحت پہلی عالمی اقتصادی کانفرنس 1971میں جنیوا منعقد ہوئی تھی سیاسی رہنمائوں، اداروں کے اعلیٰ منتظمین اور بینکاروں کا منگل سے شروع ہونے والا سالانہ اجتماع جمعہ تک جاری رہے گا۔ اس میں وزیراعظم نواز شریف سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کے رہنما اور مندوبین شریک ہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ کی اس اجلاس میں موجودگی کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ یہ کسی چینی رہنما کی جانب سے اس فورم میں پہلی شرکت ہے۔ اقتصادی ماہرین عالمی معاشی صورتحال کی جو تصویر اب تک دیکھتے رہے ہیں وہ اگرچہ تابناک نہیں، مگر چینی رہنما کی عالمی اقتصادی فورم میں شرکت سے یہ امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں کہ عالمی معیشت کے حوالے سے پائے جانیوالے بعض اندیشوں کو باہمی رابطوں اور مشوروں کے ذریعے تدبر سے دور کرنے میں مدد ملے گی مگر کچھ پہلو یقیناً ایسے ہیں جن کی صورتحال نومنتخب امریکی صد ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد زیادہ واضح ہوسکے گی۔ اس وقت تک کی کیفیت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض بیانات میں اقتصادی ماہرین امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اور وسیع اقتصادی کشیدگی کے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے چینی مال کی درآمد پر بھاری ٹیکس لگانے کے ارادوں کا اظہار ہوا ہے اور انہوں نے ’’چین کی موت‘‘ نامی کتاب کے مصنف اور چینی پالیسیوں کے بڑے ناقد پیٹرنوارو (Peter Navarro) کو اعلیٰ تجارتی مشیر کے طور پر نامزد کیا ہے۔ پچھلے مہینے امریکی فیڈرل ریزرونے اس عشرے میں دوسری بار سود میں اضافے کے ذریعے یہ اشارہ دیا ہے کہ عالمی مالیاتی بحران کے بعد زیادہ نرم مالیاتی پالیسی کا جو دور شروع ہوا تھا، وہ اب ختم ہونے جارہا ہے۔ چینی صدر نے عالمی اقتصادی فورم میں جو تقریر کی، اس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ عالمی تجارتی جنگ سب کیلئے تباہ کن ہوگی۔ ان کی طرف سے آزاد تجارت کا بھرپور دفاع ،عالمگیریت میں زیادہ خطوں کی شرکت ممکن بنانے پر زور اور چین کی تعمیر و ترقی کو دنیا کے لئے سنہری موقع قرار دینا اور مواقع کو شیئر کرنے کے حوالے سے دوسرے ملکوں کو کی گئی پیشکش نے بیجنگ کی عالمی کردار ادا کرنے کی خواہش کو نمایاں کیا ہے ۔ چینی صدر نے مئی کے مہینے میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ بین الاقوامی فورم‘‘ کی میزبانی کا اعلان کیا جس کا مقصد علاقائی و بین الاقوامی معیشتوں کے مسائل حل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کو بھی اسی حکمت عملی کی علامت سمجھا جاسکتا ہے جو وزیراعظم نواز شریف کے الفاظ میں ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے اور جس سے چین اور پاکستان ہی نہیں متعدد ممالک فائدہ اٹھا سکیں گے۔اس وقت دنیا جس معاشی صورتحال سے دوچار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف آٹھ افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی 3.6ارب انسانوں تک پہنچنے والی مجموعی دولت کے مساوی دولت مرتکز ہوچکی ہے۔ غریب ملکوں کی فی کس آمدنی امیر ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم، اور ملکوں کے اندر بھی افراد کے درمیان وسائل کا فرق بہت زیادہ ہے۔ یہ منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ قوموں ، ملکوں اور افراد کی سطح پر دولت کے بہائو کا رخ امیروں سے غریبوں کی طرف کرنے کے طریقے اختیار کئے جائیں۔ یہ کام تمام ملکوں کو مل جل کر کرنا ہوگا کیونکہ معاشی عدم تحفظ کی بڑھتی ہوئی خلیج عالمی امن کیلئے بڑے خطرے کا روپ دھارتی جارہی ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ عالمی اقتصادی فورم مستقبل کی معاشی صورت گری کے ایسے خطوط نمایاں کریگا جن سے امارت و غربت کا فرق کم کرنے، عالمی برادری کو معاشی چیلنجوں سے نکالنے اور تحفظ و خوشحالی کی راہ پر لے جانے میں مدد ملے گی۔

.
تازہ ترین