اینٹوں اورسیمنٹ اور نشیب و فراز سے گزرتی موٹرویزیاچند ایک پاوراسٹیشنز سے قوموں کی تقدیر کب بدلی تھی؟ جنوبی کوریا کی تعمیرکردہ لاہور اسلام آباد موٹر ویز سے کون سا صنعتی انقلاب آگیا تھا؟اس کی وجہ سے کون سے صنعتی زون قائم ہوپائے ؟پاکستان کا مسئلہ موٹرویز یا اورنج لائن ٹرین نہیں۔ کاش اخلاقی انحطاط اور سماجی پسماندگی دور کرنا اتناہی آسان ہوتا۔ اس کا مسئلہ قومی نصب العین کی از سر ِ نو تلاش ہے ، لیکن ایسا اُسی وقت ممکن جب اسٹیرنگ درست ہاتھوں میں ہو۔ پاکستان کا قیام مسٹر جناح ، اور انقلاب ِروس لینن کے بغیر ممکن نہ تھااور نہ ہی کاسترو کے بغیر کیوبا امریکہ کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کرتا۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے کا احیائے نو درست قیادت کے بغیر ناممکن ہے ، ایسی قیادت جس کا دامن داغدار نہ ہو، اور اگر ہماری قسمت کے ستارے یاور ی کریں تو وہ دلیری ، فہم اور بصیرت سے بھی مالا مال ہو۔ پاکستان سینکڑوں موٹرویز تعمیر کرسکتا ہے ، یہ سمندر کے ساحل سے لے کر ہمالہ کی ترائی تک بلٹ ٹرینوں کا بھرپور نظام قائم کرسکتا ہے ، لیکن اگر لیڈر عوام کی فلاح کی بجائے کالا دھن سمندر پار اکائونٹس میں چھپانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہوں تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ۔
پہلے اہم چیزوں کی باری ہونی چاہئے ، جیسا کہ قومی اصطبل کی صفائی کرنا۔ یہ یقینا بہت گندے ہوچکے ہیں۔ قوم سے اس تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا گیا کہ اب سچ اورجھوٹ کی پہچان باقی نہ رہی ۔ دولت مندطبقہ امیر سے امیرتر ہوتا جارہا ہے ،اقتدارپر فائز اشرافیہ کی گردن موٹی ہوتی جارہی ہے ۔ وسائل کی اتنی بہتات کہ سمندر پار اکائونٹس کے سامنے قلزم بھی حباب آسا۔ استحقاق یافتہ طبقے کی زندگی کے کیا کہنے ، جبکہ عوام ، خدا اُن پر رحم کرے ، اپنی ابتلا کی جزا کے لئے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ جتنی مرضی موٹر ویز بنالیں، یہ مساوات تبدیل نہیں ہوتی ۔
پاناما انکشافات نے آج ہمیں معاملات کا از سر ِ نو آغاز کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ ان سے کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے نہ سرکے ۔ آخر جب پاکستان دولخت ہوا تھا تو بھی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا تھا۔ کیا کسی کو سزا ہوئی ؟ کسی کا احتساب ہوا؟کیا ہم نے اپنی روح میں جھانک کردیکھاکہ ملک دولخت ہوگیا لیکن ہم نے اس کے اسباب جاننے کی مطلق کوشش نہ کی ؟ اور تو اور، ہم نے سانحے کے مطابق آنسو تک نہ بہائے ، نہ ہی آسمانی طاقتوں کو رام کرنے کے لئے کوئی کالا بکرا ذبح کیا گیا۔ پاناما کیس بھی اسی طرح بجلی کے کوندے کی طرح لہرا کر ہمیشہ کے لئے منظر ِعام سے غائب ہوسکتا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے اس کیس میں ایک طرح کی جان سی پڑگئی ہے ، اور ہر سماعت کے موقع پر کچھ پریشان کن سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ان کے پاس ان کا قابل ِ اعتماد جواب نہیں۔
آپ کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ اب وقت بدل چکا ہے ۔ اگر یہ 1998 ء ہوتا اور اگر ایسے کسی کیس کی سماعت ہورہی ہوتی تو سپریم کورٹ پر حملے کے اعادے پر کسی کو حیرت نہ ہوتی ۔ تاہم پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے باوجود حکمران جماعت آج اتنی طاقتور نہیں جتنی اُس وقت تھی ۔ اُس وقت یہ ایسا حملہ کرکے بچ نکل سکتی تھی ، لیکن آج ایسی کسی حرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ آج اُن کا راستہ روکنے کے لئے عمران خان کی پی ٹی آئی موجود ہے ۔اس کے علاوہ آج وہ طاقت، جو اسٹیبلشمنٹ کہلاتی ہے، بھی مہم جوئی کے حق میں نہیں۔ جنرل راحیل شریف کی فعالیت اور ضرب ِعضب نے سیاست دانوںکے اعتماد کو متزلزل کردیا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ وہ مالیاتی محاذ پر اپنے پرانے دائو کھیل رہے ہوں لیکن مخالفین اور عدلیہ سے نمٹنے کے لئے آج اُن میں اتنا دم خم موجود نہیں۔ اس طرح ہم ایک نیا اور غیر معمولی ماحول دیکھ رہے ہیں۔ شریف اقتدار میں ہیں،تمام اتھارٹی اُن کے ہاتھ میں ہے ، لیکن آج وہ اس کیس میں خاموشی سے بے بسی کی تصویر بنے اپنے غصے کو دل ہی دل میں دبا کر خون کے گھونٹ پی رہے ہیں۔
1998 ء میں شریف برادران سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں عدم اتفاق پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ، لیکن آج ایسا کرنا ناممکن ۔ کہاجاتا ہے کہ اُس وقت نوٹوںسے بھرے بریف کیس ادھر سے ادھر جاتے دیکھے گئے تھے ۔ افسوس، بریف کیسز کی طاقت آج کوئی کرشمہ دکھانے سے قاصر ہے ۔ مرض کی مرضی کی دوادستیاب نہیں۔ پاکستان آگے بڑھ چکا ہے ۔ ایسا نہیں کہ ہم کوئی لبرل ملک بن گئے ہیں، لیکن کم از کم پرانی سیاست کی دھونس دھاندلی ، عدالتوں پر حملہ کرنا اور افسروں کو اپنے ساتھ رکھنا آج ممکن نہیں رہا۔ اب تو فوجی مداخلت نے بھی ’’سلیقہ ‘‘ سیکھ لیا ہے ۔ اب حکمران فیملی ملک کے مہنگے ترین وکلا کے ذریعے سپریم کورٹ کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہے ، لیکن یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہورہی ۔ عدالت میں ان سے پریشان کن سوالات بدستور پوچھے جارہے ہیں۔بلی تھیلے سے باہر آچکی، بس اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
پاناما انکشافات نے بہت سے امکانات میں رنگ بھرنے شروع کردئیے ہیں۔ فیصل صدیقی، جو ایک وکیل ہیں، کا ایک معاصر روزنامے میں ایک دلچسپ مضمون ہے، جس میں مسٹر صدیقی وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح موجودہ حکمران برس ہا برس سے عدالتوں میں قانونی جنگیں جیتتے ہوئے احتساب سے بچ نکلے ہیں۔ مضمون نگار سوال اٹھاتے ہیں۔ ’’کیا حکمرانوںکے قانونی کھیل جیتنے کا دور تمام ہوا چاہتا ہے جبکہ عدلیہ آزاد ہے؟‘‘ میری خواہش ہے کہ میں اس سوال کا جواب جانتا ہوتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایسے سوالات پوچھے جارہے ہیں، کیونکہ ماضی میں موجودہ حکمران ایسے بہت سے مقدمات سے بچ نکلے تھے ۔ سپریم کورٹ پر حملہ، 1990 کے انتخابات میں آئی ایس آئی سے رقم لینا، ماڈل ٹائون کیس وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما کیس کو پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز میں شمار کیا جارہا ہے۔
تو کیا پاکستان ایک نئے دور کا آغاز کرسکتا ہے؟ قوم کو سی پیک کے نام پر دیومالائی کہانیوں پر بہلایا جارہا ہے۔ اگر سی پیک سے بھرپور استفادہ کرنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم خود کو ایک قوم کی صورت میں ڈھالیں۔ ہم سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندگی کے ساتھ کسی راہداری سے نہیں گزر سکتے ہیں۔ اسی طرح بدعنوانی کے داغوں سے آلودہ رہنما بھی قوم کے دل میں امیدوں کے چراغ روشن نہیں کر سکتے۔ پنجاب کے زرخیز میدانوںمیں کوئلے پلانٹ لگانا کس کی ذہانت کا کرشمہ ہے؟ اب ایک طرف امید کی کرن تو دوسری طرف مایوسی کا گھٹاٹوپ اندھیرا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کس کی فتح ہوتی ہے اور اسی پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
.