• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ صدی کے انتہائی متنازع ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی زبردست احتجاجی مظاہروں اور امریکی خواتین کے حقیقی اور تصدیق شدہ ملین ویمن مارچ اور اپنے مخالفین کا سامنا کرنے کے علاوہ امریکی سی آئی اے کے ہیڈکوارٹرز میں ایک متنازع خطاب کا پہلے تین روز میں سامنا کیا اور 23؍جنوری کو چند ایگزیکٹو آرڈرز (آرڈی ننس) کے ذریعے صدر اوباما کے دور کے ایسے بعض معاہدات اور اقدامات کو منسوخ کردیا جن کی ابھی امریکی کانگریس سے منظوری ہونا باقی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کرتے ہوئے واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ، امریکی نیوز میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی اپوزیشن سمیت سب کے ساتھ بیک وقت جنگ شروع کردی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اپنے انتخابی وعدوں پر عمل شروع کررہے ہیں۔ ا نہوں نے سب کو اپنے پہلے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ صدر باراک اوباما نے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کے جس معاہدے کو مذاکرات کے ذریعے شکل دے کر ان 12ایشیائی ممالک کے لئے معاشی اور تجارتی ترقی کی جو نوید سنائی تھی اور امریکی کانگریس کی منظوری ملنا ابھی باقی تھا اس خواب کو چکناچور کردیا۔ داخلی محاذ پر وفاقی ملازمتوں کی بھرتی بند اور تنخواہوں میں اضافے کو منجمد کرنے کے علاوہ ٹریڈ یونین لیڈروں سے ملاقات کرکے ڈیموکریٹک پارٹی میں شگاف ڈالنے کا کام بھی شروع کردیا یہ وہ مزدور لیڈر ہیں جنہوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت چھوڑ کر ٹرمپ کی حمایت کی تھی۔ عالمی سطح پر صدر ٹرمپ نے ان تمام عالمی NGO پر بھی امریکہ میں پابندی کردی ہے جو اسقاط حمل کی حامی ہیں۔ ادھر میکسیکو، کینیڈا اور امریکہ کے درمیان ایک عرصے سے نافذ آزادانہ تجارت کا معاہدہ ’’نافٹا‘‘ (NAFTA) کو بھی غیرموزوں قرار دے کر اس معاہدہ کو ازسر نو طے کرنے کے لئے مذاکرات کی کال دے کر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی امریکہ میں ایک نئی سیاسی اور معاشی ہلچل پیدا کردی ہے۔ ان کے اعلانات و اقدامات بتا رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو داخلی معاشی و معاشرتی طور پر ایک نئی کنزرویٹو شکل دینا چاہتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ دنیا کو بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں جبکہ دنیا اب ’’یونی پولر‘‘ برتری سے نکل کر’’ملٹی پولر‘‘ شکل اختیار کررہی ہے۔ صدرٹرمپ کے وزراء، مشیران اور معاونین میں سخت کنزرویٹو بلکہ بعض نسل پرستی کے حامی وہائٹ ہائوس کے اہم عہدوں پر فائز ہوگئے ہیں۔
ایک طرف تو ٹرمپ ایڈمنسٹریشن میں یکطرفہ نظریاتی افراد کی ٹیم ہے تو دوسری جانب امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں بھی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ تمام تر اختلافات اور ناپسندیدگی کے باوجود ری پبلکن اراکین اپنے ری پبلکن صدرکی حمایت کریں گے۔ مختصر یہ کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک بااختیارمضبوط صدر کے طور پر ری پبلکن اکثریت کی کانگریس کی حمایت سے ہر طرح کے فیصلے اور اقدامات کرنے کا ایسا اختیار ہے جو صدر اوباما کے لئے محض ایک خواب ہی رہا۔ اپنے اس اعتماد اور مضبوطی کے تناظر میں ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے فوری طور پر اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کردیا ہے۔ ادھر عالمی سطح پر مسلم دنیا کے موجودہ اور سابق حکمراں ٹرمپ ٹیم کی سہ لیسی کے لئے ابھی سے ہی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔تاہم ٹرمپ ٹیم کو بھی مزاحمت کا سامنا کچھ یوں ہے۔
(1) ڈونلڈ ٹرمپ نے خود اپنے زعم، اپنے منشور، اپنے بیانات و اقدامات سے امریکی عوام کو اپنے شدید حامیوں یا پھر اپنے مخالفین میں تقسیم کردیا ہے۔ گوکہ صدارت کے لئے حلف برداری کی تقریب ہونے تک سیاسی اختلافات کو ختم یا کم کرکے نئے صدر کے لئے ایک بہتر ماحول میں کام کرنے کی فضا پیدا ہوجاتی ہے لیکن صدر ٹرمپ نے سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی کی صورت حال کو برقرار رکھنے سے بھی آگے جاکر قومی ماحول میں مزید تنائو پیدا رکھا ہے امریکی میڈیا کو مسلسل جھوٹا کہنے اور توہین آمیز سلوک برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی پہلی صدارتی تقریر میں ہی تنقید کا نشانہ بناکر صورت حال کو بدتر کردیا۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پہلے ہی روسی ہیکنگ کے مسئلے پر جھوٹا اور ناکارہ قراردینے کے بعد صدر کے طور پر جب سی آئی اے کے ہیڈکوارٹرز میں خطاب کیا تو میموریل دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر امریکی سی آئی اے کے ملازمین کو مزید ناراض کرکے لوٹے۔ امریکہ میں زندگی گزارنے کے عرصہ میں قدرت نے ٹرمپ سمیت پانچ امریکی صدور کی تقاریب حلف برداری کے واشنگٹن میں عینی مشاہدات اور شرکت کا موقع دیا۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر سخت متنازع حلف برداری اور اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود احتجاجی مظاہرے اور لیموزین کو نذر آتش کرنے کے واقعات نہیں دیکھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدربن چکے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی تقریب حلف وفاداری اور اجتماع بھی تاریخی طور سے بڑا تھا اور 40ملین سے زائد امریکیوں نے مختلف ٹی وی اور طریقوں سے دیکھا ہے لیکن امریکی میڈیا جھوٹا ہے کم تعداد بیان کررہا ہے۔ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق صدر اوباما کی حلف برداری کے مقابلے میں ٹرمپ کی تقریب میں شرکاء کی تعداد کم تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے معاونین زمینی حقائق کو ماننے کی بجائے ایک خود ساختہ خوش فہمی کو حقیقت منوانے پر مصر ہیں۔ امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کے نامزد سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومیو کی تقرری کی منظوری بھی دیدی کچھ کی منظوری پہلے مل چکی ہے لہٰذا ٹیم کی تشکیل میں ٹرمپ کو امریکی کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔ عالمی سطح پر چین سے ٹرمپ نئے تجارتی مذاکرات چاہتے ہیں۔ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ سے امریکہ کی دست برداری سے چین کے گرد گھیرائو کا ماحول بھی کمزورہوگا۔ نیٹو کے بارے میں ابھی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی واضح نہیں ہے۔ روس کے ساتھ گرم جوشی بدستور رہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کی اسٹیبلشمنٹ کو تبدیل کرتے ہیں یا خود تبدیل ہوتے ہیں؟ مسلم دنیا کے لئے ٹرمپ کا اعلان ہے کہ انتہا پسند اسلام کے حامیوں کو کچل ڈالیں گے۔ حلف کے دوسرے روز واشنگٹن میں حقوق نسواں، شہری حقوق کی پاسداری کے حق میں اور ٹرمپ کے عورتوں سے رویہ کے خلاف بڑا، منظم اور پرامن اجتماع خواتین کا تھایہ حقیقی اور عملی ملین مارچ تھا۔ اور بلندی سے بھی جدھر بھی دیکھا پنک اونی ٹوپیاں پہنے خواتین ہی خواتین نظر آئیں۔بہرحال صدر ٹرمپ نے اپنے چاروں طرف تصادم اور ضد کی فضا قائم رکھتے ہوئے صدارت کا آغاز کیا ہے پاکستان کے حوالے سے عرض ہے کہ واشنگٹن کے مظاہرے میں نذر آتش کی جانے والی لیموزین ایک پاکستانی کی کمپنی کی ملکیت تھی۔ سابق صدر آصف زرداری، رحمٰن ملک اور شیری رحمٰن کے ہمراہ واشنگٹن میں دو روز قیام میں چند سینیٹروں اور دیگر سے ملاقاتیں کرکے حلف کی تقریب سے قبل ہی لندن چلے گئے خاموش اور پاکستانیوں کی دسترس سے دور یہ ملاقاتیں رہیں ابھی تک سسپنس طاری ہے۔ وزیر دفاع کی تقرری کی منظوری ہوچکی پاکستان سے مذاکرات کا مرحلہ باقی ہے۔



.
تازہ ترین