جن لوگوں نے تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی وہ نسل قبروں میں جا سوئی ہے۔ البتہ ان کی آئندہ نسلوں کو ہجرت سے جو معاشرتی اور معاشی آسودگی حاصل ہوئی ہے اس کا موازنہ ہم عصرانڈین مسلمانوں سے کیا جا سکتا ہے یا سندھ اور پنجاب کے پس ماندہ باشندگان سے جن کے آقائوں کے صرف ہاتھ بدلے ہیں۔ ہجرت کے مفادات کے پیش نظر مہاجری لفظ ناپید ہوجانا چاہئے تھا اگر سیاسی مفاد پرست نظریہ ضرورت اور اپنے طوالت اقتدار کے لئے اسے ہوا نہ دیتے رہتے۔
آزادی کے وقت جو ہندو۔ سکھ بھارت چلے گئے تھے ان کی غیر منقولہ فیکٹریوں۔ سنیمائوں اور صنعتوں کو مسلمان مہاجرین کو الاٹ کیا جانا حکومت پاکستان کی جانب سے طے کیا گیاتھا بورڈ قائم ہوتے ہی درخواستوں کا ایسا سیلاب امنڈ آیا کہ الامان الحفیظ۔ جو کلیم داخل ہوئے وہ جھوٹ فریب اور جعلسازی پر مبنی تھے۔ جتنا بڑا ٓآدمی اتنا بڑا کلیم اور اتنا ہی بڑا فریب دونوں ملکوں میں جعلسازی کے دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ جو درخواست کی مطابق دستاویز تیار کردیتے تھے۔ ان صنعتی املاک کی تقسیم۔ پرمٹ اور لائسنس کے اجراسے ہمارے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ بددیانتی اور حرص وہوا کا جو فروغ ہواوہ فصل ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ تاریخ میں مسلمانوں نے اتنے بڑے پیمانے پر کم ظرفی کا ثبوت کیوں دیا؟ اقتدار اور ہوس زر کی اس لوٹ مارنے ابتدائی سات سالوں کے جذبہ جوش جنوں کو مایوسی میں بدل دیا۔
فطرت افراد سے آغاز تو کرلیتی ہے
نہیں کرتی مگر قوموں کے گناہوں کو معاف
ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو علاقائی نسبت سے دوقسم کی قربانیوں کا سامنا کرناپڑا۔ پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو جانی ومالی دونوں قسم کا نقصان اٹھانا پڑا۔ جبکہ یوپی۔ بہار۔ سینٹرل اور جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کو صرف نقل مکانی کرنی پڑی جتنی بڑی جانی ومالی قربانی حالات کے جبر کی وجہ سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو دینی پڑی اس کا عشر وعشیر بھی کسی اور علاقے کے مسلمانوں کے حصے میں نہیں آیا۔ البتہ ان مہاجرین کی مغربی پنجاب کی ثقافت، زبان اور مذہب کی یکسانیت میں رچ بس جانے کی وجہ سے علیحدہ شناخت اب ممکن نہیں۔
بنگال1905میں انتظامی امور کے لئے مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم ہوچکا تھا۔ جسے1911میں احتجاج اور شورش کے بعد متحدہ بنگال بنادیاگیا لہذا 20جون1947کوجب دستور ساز اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے بنگال کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کردیا تو بنگال کی متوقعہ تقسیم بالکل واضح تھی لہذا نقل مکانی بلاکسی بڑے فساد عرصہ 20سال میں باآسانی ممکن ہوگئی۔ صرف بارسیال۔ نواکھالی اور کلکتہ میں کچھ فسادات ہوئے۔
UP۔ بہار اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے مسلمانوں کو چونکہ ہجرت میں طویل مدت پرامن راہداری اور وسائل میسر آگئے لہذا ان کا پاکستان منتقل ہونا اتنا کھٹن ثابت نہیں ہوا بہار کے زیادہ تر مسلمان بذریعہ بنگال مشرقی پاکستان منتقل ہوگئے یا بذریعہ شپ بمبئی یاچٹاگانگ سے کراچی عازم سفر ہوئے۔ بمبئی سے بذریعہ کراچی حجاج کے لئے شپنگ لائن کافی عرصے سے بحال تھی۔رانی اور جمشید پور کے مسلمانوں کو قلیل مدت کے لئے فسادات کا سامنا کرنا پڑا۔
پنجاب کی قربت اور شرنارتھیوں کی دہلی آمد کی وجہ سے دہلی کے مسلمانوں کو قتل وغارت گری کا سامنا کرنا پڑا۔اقوام متحدہ کے اعداوشمار کے مطابق تقسیم ہند کے وقت 15ملین افراد کونقل مکانی کرنی پڑی جن میں دس سے بیس لاکھ مسلم، ہندو اور سکھ ہلاک ہوئے۔ نامعلوم تعداد میں خواتین کے ساتھ بدترین دست درازی اور اغوا کے واقعات ہوئے۔ جو ہلاکت سے زیادہ مہلک معاشرتی کرب اور ذہنی دبائو کا شکار ہوئیں۔ اس ہجرت کو تاریخی طور پر سب سے بڑی انتقامی نسل کشی قرار دیا جاتا ہے۔
1951کی مردم شمار کے مطابق145لاکھ افراد کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔72لاکھ مسلمان انڈیا سے پاکستان منتقل ہوئے جبکہ47لاکھ ہندو اور سکھ نے ہندوستان کی جانب ہجرت کی۔ 65لاکھ مسلمان جو مغربی پاکستان آئے ان میں سے53لاکھ پنجاب میں رہائش پذیر ہوئے۔ اور12لاکھ سندھ میں کراچی، حیدرآباد،سکھر اور میرپور خاص میں آباد ہوئے۔7لاکھ مسلمانوں نے مشرقی پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ پنجاب میں ہریانہ، ہماچل پردیش اور دہلی سے آبادی کا انتقال رہا۔ جبکہ مہاراشتر،گجرات،بمبئی، بہار اور یوپی سے مہاجر سندھ میں آباد ہوئے۔
ایک تاریخی ہجرت تھرایکسپریس جودھپور تاکراچی کینٹ اور سندھ میل کراچی، حیدرآباد، کھوکھراپار، میرپور خاص( پاکستان) مونا باو۔ جودھ پور۔ مارواڑ۔ پالن پور۔ احمد آباد۔( انڈیا) کے ذریعے طے ہوئی۔ یہ راستہ 1965کی جنگ میں بند ہوا۔ ان علاقوں کے ہندو اور مسلمانوں کی سرحد کے آرپار رشتہ داریاں تھیں۔ ان راستوں سے یوپی،کچھ اور راجپوتانہ کے مسلمانوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔1952سے قبل پرمٹ اور بعد میں پاسپورٹ بطور سفری دستاویز استعمال ہوا۔ چند جھڑپوں کے علاوہ یہ ذریعہ پرامن رہا۔700کے قریب پرنسلی ریاستوں کے بارے میں باونڈری کمیشن نے طے کردیاتھا کہ وہ اپنے فیصلوں کے بارے میں خود مختار ہیں۔ ان ریاستوں میں کشمیر اور حیدرآباد دکن کی صورت حال ان کی جغرافیائی اور آبادی کے تناسب کی وجہ سے کافی منفرد تھی۔حیدرآباد دکن میں مسلمان حکمراں مگر آبادی ہندو جبکہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں اور حکمراںہندو تھے۔
cyril Redcliffکو بنگال اور پنجاب کے درمیان باونڈری لائن کھینچنے کے لئے چھ ہفتوں کی مدت۔سخت موسم گرما۔ ناقص نقشے اور1941کی مردم شماری کے اعدادوشمارمہیا کئے گئے تھے مشرقی پنجاب میں گرداسپور اور فیروزپور آبادی اور جغرافیائی اعتبار سے مسلم اکثریتی علاقے متصور کئے جاتے تھے۔ کمیشن کے8اگست کے نقشوں کے مطابق فیروز پورپاکستان کا حصہ دکھایا گیاتھا۔ لیکن 16اگست کے اعلان لارڈمائونٹ بیٹن کے تحت اسے انڈیا میں شامل کردیا گیا۔ اور انڈیا کو کشمیر تک راستہ فراہم کئے جانے کے لئے گرداسپور بھی انڈیا کے سپرد کردیاگیا۔ یہ خبر ان علاقوں کے مسلمانوں پر بجلی بن کر گری۔ اور ان پر جو گزری اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 13ستمبر1948کوقائداعظم کے انتقال کے دودن بعد حیدرآباد دکن پر پولیس ایکشن کے نام سے انڈین آرمی نے چڑھائی کردی۔ اس آپریشن میں24سے27ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے۔مہاجرمسلمانوں کی زندگی کے معیار میں پاکستان کی برکت سے اس قدر الف لیلوی بن گئی کہ قصہ سوتے جاگتے اس کے آگے ہیچ ہے۔
یہ سال میں ایک مرتبہ ویزہ لگواکر تام جھام کے ساتھ اپنے خاندان سے ملنے ہندوستان جاتے تھے۔ جس کو اب یہ گھر کہتے تھے۔ گھر یعنی بریلی یا مرادآباد۔ لیکن ملک اب پاکستان ہے۔ علی گڑھ میں یہ کہاوت عام تھی کہ مسلم یونیورسٹی کی سڑک دہلی کی بجائے سیدھی کراچی جاتی ہے۔ کامن ویلتھ کے وظفیوں کے ذریعے کینڈا اور برطانیہ کے دروا ہوچکے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے لئےامریکہ بھی بے حد مہربان تھا۔
کوہ ندا کی آواز کے آگے کوئی روکے نہ رکتا تھا۔ یہ صدائے سامری کبھی رشتوں اور کبھی شاندار مستقبل کے حوالے سے بے چین کردیتی تھی۔ ایسے میں شاعربھی ہمارے دور کے مجبور ہوگئے۔ جگر مراد آبادی،جون ایلیا۔ جوش ملیح آبادی اور افتخار وعارف کو بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
شکم کی آگ لئے پھررہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
افتخار عارف اس دور کا ادب یاتو شب گزیدہ سحر کی مانند مایوسی کاترجمان یا ماضی کی حسرتناک یادوں میں گم۔ امرتا پریتم کی وارث شاہ سے منظوم التجا خشونت سنگھ(LAST TRAIN TO PAKISTAN)اور احمد ندیم قاسمی(پرمیشر سنگھ) کی نثر انسان دوستی کے عکاس افسانے ہیں۔
.