لندن (مرتضیٰ علی شاہ) سکاٹ لینڈ یارڈ نے حکومت پاکستان کی درخواست پر الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس اس وقت تک دوبارہ کھولنے سے معذرت کرلی ہے جب تک کہ حکومت کی جانب سے تفتیش دوبارہ کھولنے کی درخواست کے ساتھ مزید ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاتے۔ پولیس کے باوثوق ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تفتیش دوبارہ شروع کیا جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ دوبارہ تفتیش کا اس وقت تک کوئی جواز نہیں ہوگا جب تک یہ مفاد عامہ میں نہ ہو اور ایسا نئے شواہد پیش کئے بغیر ممکن نہیں ہے، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دوبارہ تفتیش پر رقم خرچ ہوگی جو ٹیکس دہندگان کو ادا کرنا ہوگی اس لئے اس خرچ کا کوئی جواز پیش کیا جانا ضروری ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب گیند ایک دفعہ پھر پاکستان کے گول میں ہے لیکن اگر پاکستان واقعی منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش دوبارہ شروع کرانے میں سنجیدہ ہے تو اس کیلئے کئی طریقہ کار موجود ہیں جن میں انڈیپنڈنٹ پولیس کمپلین کمیشن کو لکھنا، لندن ہائیکورٹ میں پولیس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کیلئے مقامی کرمنل وکلا کی خدمات حاصل کرنا، سول پراسیکیوشن شروع کرنا، باہمی قانونی معاونت کے تحت برطانوی حکام سے مدد کی درخواست کرنا اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی قانونی فورمز کو اس میں شامل کرنا شامل ہے لیکن گزشتہ3سال کے دوران منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پاکستانی حکام نے خطوط لکھنے کے سوا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام اس سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان اور ایسے کسی قانونی آپشن سے استفادہ نہ کئے جانے کے سبب پولیس اس بات پرمتفق ہے کہ نہ صرف یہ کہ تفتیش دوبارہ شروع نہیں کی جائے گی بلکہ لندن پولیس کے پاس موجود شواہد بھی پاکستانی حکام کو نہیں دیئے جائیں گے، پولیس ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ دوبارہ تفتیش شروع کرنے کا اس وقت تک کوئی جواز نہیں ہوگا جبکہ پاکستان اس بات کا ٹھوس ثبوت پیش نہ کر دے کہ لندن میں ایم کیو ایم کے قائد نے جرائم کے ذریعے حاصل کردہ رقم پاکستان سے برطانیہ میں وصول کی، جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پولیس الطاف حسین، محمد انور، سرفراز مرچنٹ اور دیگر کے خلاف اکتوبر2016کے وسط میں مقدمہ بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرسکتی ہے، تو ایک ذریعے نے بتایا کہ جب تک بالکل نئے شواہد کے ساتھ کوئی نئی صورت حال پیدا نہ ہو جائے اس کا کوئی امکان نہیں۔ انھوں وضاحت کی کہ الطاف حسین اور دیگر کے خلاف تفتیش کے دوران بین الاقوامی انکوائریز سمیت تفتیش کے تمام مناسب خطوط ختم ہوچکے ہیں، پولیس کا کہنا ہےکہ تمام شواہد کا جائزہ لینے کے بعد تفتیش ختم کی گئی ہے اور ارکان پارلیمنٹ نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ اس بات کے ثبوت ناکافی ہیں کہ ضبط کی گی رقم جرائم کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور غیر قانونی کام کیلئے استعمال کی جانی تھی۔ دی نیوز نے جب کرائون پراسیکیوشن سروس سے پاکستان کی درخواست کے حوالے سے ان کے خیالات معلوم کئے تو ایک ترجمان نے کہا یہ سکاٹ لینڈ یارڈ اور پاکستانی حکام کے درمیان معاملہ ہے۔ بیرسٹر رشید احمد اور بیرسٹر ذیشان حسین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ جب تک نئے شواہد سامنے نہیں آتے تفتیش دوبارہ کھولے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا برطانوی حکومت برطانوی حکومت پاکستان کی جانب سے برطانیہ کے پاس موجود منی لانڈرنگ کے حوالے سے تفتیش کی معلومات حکومت پاکستان کی درخواست پر غور کرے گی، ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان کراس بارڈر جرائم کے الزامات کا تبادلہ کرنے کا مفاہمت کی ایک یادداشت موجود ہے یہ یادداشت منشیات اور دہشت گردی کے الزامات کیلئے ہیں، اگر مناسب ذرائع سے کہا جائے گا تو برطانیہ اپنے پاس موجود ایسا متعلقہ مواد پاکستان کے حوالے کردے گی جس سے پاکستان میں کسی مجوزہ سرکاری انکوائری یا پراسیکیوشن میں مدد مل سکے۔