• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نادرا کی ناقص کارکردگی کے باعث عام لوگ کافی پریشان ہیں۔ اس عوامی خدمت کے دعویدار ادارے کی وجہ سے کم از کم تیس لاکھ لوگ پریشانی سے گزر رہے ہیں۔ اس ادارے نے قریباً چار لاکھ لوگوں کے کارڈز کو مشکوک قرار دے کر بند کردیا تھا ،ساتھ ہی یہ کارنامہ بھی کردیا کہ جن لوگوں کے کارڈز بند کئے گئے ان لوگوں کے خاندانوں سے وابستہ افراد کے کارڈز بھی بند کردئیے گئے۔ اس طرح قریباً تیس لاکھ افراد کے کارڈز کو بندش کی چکی میں پیس دیا گیا۔ ان تمام افراد کی تفتیش ایک جوائنٹ سیکرٹری کے ذمہ ہے۔ پورے ملک کا بوجھ ایک فرد پر ہے۔ ہماری وزارت داخلہ اس مقصد کے لئے صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں بھی دفاتر قائم کرسکتی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اب ملک کے کسی بھی کونے میں کسی کا کارڈ بند ہوجائے تو اسے وزارت داخلہ اسلام آباد کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ کوئی ایک چکر نہیں، کئی کئی چکر۔ ان چکروں سے پہلے کارڈوں کی بندش کے باعث لوگوں کو سال ڈیڑھ سال یا کئی مہینے تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ کارڈ کی بندش ہوتے ہی مذکورہ افراد کے بنک اکائونٹس منجمد ہوجاتے ہیں،وہ نہ اپنی جائیداد فروخت کرسکتے ہیں اور نہ ہی نئی جائیداد خرید سکتے ہیں، یہی صورتحال گاڑیوں کی خرید و فروخت میں ہے۔ ان افراد کے بچوں کو تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چودھری نثار علی خان کو اس بارے میں ضرور کچھ کرنا چاہئے خواہ اس کے لئے دو چار پریس کانفرنسیں منسوخ ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔ چوہدری نثار علی خان کو اپنی وزارت کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ کارڈز کی بندش کے سلسلے میں نادرا کا عملہ لوگوں سے پیش آتے وقت بسا اوقات اخلاقیات بھی بھول جاتا ہے۔ لوگ پریشانی میں اس بدتمیزی سے تنگ ہیں۔
اسلام آباد میں ایک چھوٹا الیکشن ہوا ہے، بڑا الیکشن بعد میں ہوگا۔ یہ چھوٹا الیکشن آر آئی یو جے کا تھا اس کے بعد پی ا یف یو جے یعنی پاکستان فیڈریشن یونین آف جرنلسٹس کا الیکشن ہوگا۔ راولپنڈی اسلام آباد کے یونین الیکشن میں افضل بٹ اور اس کی ٹیم نے مختلف گروپوں پر مشتمل ایک بڑے اتحاد کو ایک بڑی شکست سے دو چار کیا۔ افضل بٹ کو یونین کے ساتھ بچپن سے رغبت ہے۔ دراصل یونین سے محبت انہیں اپنے بڑے بھائی فاضل بٹ سے ملی۔ فاضل بٹ ٹریڈ یونین کے بڑے لیڈر رہے ہیں۔ یہ پیرا گراف میں نے اس لئے لکھا ہے کہ صحافیوں کے مابین سالوں کا اختلاف ختم ہو کر الیکشن ہوا ہے۔ اس الیکشن میں جمہوری اصولوں کی پاسداری کا خیال رکھا گیا، کاش ہماری سیاسی جماعتیں بھی جنرل الیکشن میں جمہوری روایات کی پاسداری کا مظاہرہ کریں۔ دعا ہے کہ اگلے جنرل الیکشن اس قدر صاف ہوں کہ کوئی سیاسی جماعت دھاندلی نہ کرسکے جو اسٹے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، وہ بھی نہ چھپ سکیں۔ لوگوں کا فیصلہ مانا جائے، لوگ اپنے نمائندے منتخب کریں، انتخابات میں ’’مردے‘‘ ووٹ نہ ڈال سکیں۔
پچھلے دنوں ایک وفد کے ساتھ سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ سری لنکا ہم سے چھوٹا اور کمزور ملک ہے مگر سری لنکا بہت خوبصورت ہے، وہاں سبزہ بچھا ہوا ہے، سبزہ پھیلا ہوا ہے، وہاں پہاڑ بھی ہیں، سمندر بھی ، باغات اور کھیت بھی۔ لنکا میں چائے ہے، چاول ہیں، مچھلی ہے، مچھیرے ہیں۔ ناریل ہے، ربڑ ہے، خوبصورت بیچز ہیں، ساحل پورا خوبصورت ہے، شرح خواندگی بہت زیادہ، کھیل کے میدان آباد، عورتیں مرد سب ترقی کے عمل میں شامل ہیں۔ صفائی ایسی کہ آئینے رشک کریں۔ ہمارا وفد چھ مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل تھا مگر کولمبو اترتے ہی ا س سحر انگیز شہر نے ہمیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ ائیر پورٹ پر ہمیں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو افراد پریس اتاشی انتصار احمد سلہری اور پروٹوکول آفیسر شکیل یوسف لینے آئے تھے۔ ہماری دو ساتھی سارا رستہ انگریزی کے ٹکڑے کرتی رہیں بالآخر مجھے ہوٹل کی لابی میں پہنچ کر مجبوراً کہنا پڑا کہ غلامی کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں، غلام آپس میں بھی اپنی زبان نہیں بولتے بلکہ وہ فخریہ انداز میں اپنے آقائوں کی زبان بولتے ہیں۔ مائوزے تنگ کمال آدمی تھا، اس نے چینی لوگوں میں سے غلامی نکال دی، اب چینی کسی صورت بھی غلامی نہیں کرتے۔ اسی لئے آج چین بہت آگے ہے۔
اس پورے سفر کو جاوید چوہدری نے خوشگوار بنائے رکھا۔ وہ ایسے انسان ہیں کہ کسی بھی لمحے بور نہیں ہونے دیتے۔ دورہ ختم ہوگیا مگر سارک کانفرنس کے معاملے پر شوکت پراچہ کی کڑواہٹ ختم نہ ہوئی۔وفد جب سری لنکا کے مختلف اداروں کے دورے پر تھا تو بعض اوقات بڑی سنجیدہ میٹنگ میں بھی جاوید چوہدری کوئی ا یسی پھلجھڑی چھوڑتے کہ سری لنکن بھی ہنسے بغیر نہ رہتے۔ ہارون الرشید ہمہ وقت سنجیدہ دکھائی دیئے جبکہ اپنے عامر ملک میٹنگوں کو وقت کی قید میں رکھنے کے لئے کوشاں رہے۔ اطہر وقار عظیم سری لنکن الیکٹرانک میڈیا پر ڈرامے کی باتیں کرتے رہے۔
سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے تمام افراد ہی خوبصورت ہیں، ہائی کمشنر جنرل سید شکیل حسین انتہائی سنجیدہ فکر آدمی ہیں جبکہ کرنل راجل ارشاد اور سلہری صاحب ہر وقت چاق و چوبند، جانباز خان اور سرفرازصاحب سرگرم،اپنے پیارے فاروق صاحب اردو، سندھی، انگریزی کے علاوہ مقامی زبان بھی خاصی جانتے ہیں۔ یہاں میں ہائی کمشنر کےا سٹاف میں سے بشیر اعوان کا تذکرہ ضرور کروں گا کہ وہ بھی بڑے متحرک ہیں۔
کبھی اسلام آباد کولمبو سے زیادہ خوبصورت تھا مگر آج کولمبو زیادہ خوبصورت ہے۔ کولمبو بہت صاف ستھرا ہے، ہر وقت نہایا دھویا رہتا ہے، وہاں بہت ہریالی ہے، کولمبو میں لوگ فٹ پاتھوں پر ایسے پیدل چلتے ہیں جیسے کسی بھی مغربی ملک میں لوگوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ مجھے کئی مرتبہ راتوں کو احساس ہوا جیسے میں نیویارک میں پھررہا ہوں۔ شاید اس کی وجہ سمندر اور صفائی تھی۔ کولمبو میں خوبصورت عمارتیں ہیں، کہیں گندگی کے ڈھیر نہیں، شاندار سڑکیں ہیں، کہیں کھڈا نہیں اور نہ ہی کوئی سڑک بننے کے لئے کھدائی نظر آتی ہے۔ اس شہر کے گرائونڈ ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔ یہ شہر صبح سویرے جاگ جاتا ہے پھر یہ سارا دن جاگتا رہتا ہے، یہاں لوگ ویک اینڈ کے علاوہ جلدی سوجاتے ہیں، دیر سے سونا تو ہماری بیماری ہے۔ سری لنکن اچھے لوگ ہیں، پاکستانیوں سے بہت پیار کرتے ہیں، انہیں ہر لمحہ یہ احساس رہتا ہے کہ ہمارے مشکل وقت میں پاکستان نے ہماری بہت مدد کی تھی، وہ خاص طور پر پاکستانی فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سری لنکا میں میوزک عام ہے، وہ شاید ہر کام میں ڈھول بجانا لازمی سمجھتے ہیں، انہیں فائیوا سٹار ہوٹلوں میں بھی ڈھول بجا کر خوشی ہوتی ہے۔ گال کا سفر کیسا رہا، سری لنکن اداروں میں ہماری کیا باتیں ہوئیں، یہ سب باتیں اگلے کالم میں فی الحال احمد فراز کا شعر؎
میں برف برف رتوں میں چلا تو اس نے کہا
پلٹ کے آنا تو کشتی میں دھوپ بھر لانا



.
تازہ ترین